سوال (5774)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : “مَوْتُ الْفَجْأَةِ رَاحَةٌ لِلْمُؤْمِنِ وَأَخُذَةُ أَسَفٍ لِلْفَاجِر”
“مَوْتُ الْفَجْأَةِ تَخْفِيفٌ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَمَسْخَطَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ”
درج بالا دونوں آیتوں میں تطبیق دیں؟
جواب
دونوں روایات موجود ہیں، بعض روایات میں اچانک موت مؤمن کے لیے راحت ہے، انہوں نے اس کی صحت کا اقرار کیا ہے، بعض اہل علم نے اسے منکر اور ضعیف قرار دیا ہے، صحیح قرار دینے والے توجیہات کرتے ہیں، سلف صالحین کی مثالیں دیتے ہیں، جس طرح حادثہ وغیرہ کی موت بھی اچانک ہوتی ہے، یہاں تک سیدنا سلیمان علیہ السلام کی موت کو بھی اچانک قرار دیا ہے، بہرحال اس میں دونوں طرح کی رائے موجود ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی مرفوع روایت سخت ضعیف ہے۔
دیکھئے مسند أحمد بن حنبل:(25042) طبع الرسالہ اس کی تعلیق میں اس کی دیگر سخت ضعیف اسانید ذکر کی ہیں۔ البتہ یہ موقوفا روایت
اس سند ومتن سے موجود ہے۔
حدثنا يحيى بن آدم حدثنا أبو شهاب عن الأعمش عن زبيد عن أبي الأحوص عن عبد اللَّه وعائشة قالا: موت الفجاءة رأفة بالمؤمن وأسف على الفاجر، مصنف ابن أبي شيبة:(12375)
اس کا عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہونا ہی صواب وراجح ہے۔
دیکھیے مسند أحمد بن حنبل:41/ 492 کی تعلیق
البتہ ایک اور روایت مرفوع و موقوف مروی ہے اسے ملاحظہ کریں۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺷﻌﺒﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺗﻤﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻣﻮﺕ اﻟﻔﺠﺄﺓ ﺃﺧﺬﺓ ﺃﺳﻒ، ﻭﺣﺪﺙ ﺑﻪ ﻣﺮﺓ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ،
مسند أحمد بن حنبل:(15496، 17924)السنن الکبری للبیھقی:(6570،6571)صحیح
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺗﻤﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﻣﻮﺕ اﻟﻔﺠﺄﺓ: ﺃﺧﺬﺓ ﺃﺳﻒ،
مسند أحمد بن حنبل:(15497، 17925) صحیح
محمد بن جعفر غندر امام شعبہ سے روایت میں أثبت ہیں۔
اور شعبہ سے یحیی بن سعید القطان، روح بن عبادہ نے مرفوعا روایت کیا ہے اور اس کا مرفوع ہونا ہی صواب ہے اور اگر ہم اسے موقوف مانیں تو تب بھی حکما مرفوع ہے۔
تو اس صحیح السند روایت کے ساتھ حدیث عائشہ قابل قبول ہے۔ والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ