اچھے اور برے خاتمے کی علامات
قارئین کرام ! ذیل میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اسلاف امت کے اقوال پیش کر رہے جن میں صریحا یا اشارتا اچھے اور برے خاتمے کی علامات موجود ہیں آئیں ملاحظہ فرما کر اچھا خاتمہ پانے کی کوشش کریں ۔ اللہ ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔
1 لا إله إلا الله پر موت آنا
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ، دَخَلَ الْجَنَّةَ .
جس شخص کا آخری کلام «لا إله إلا الله» ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
(سنن ابی داؤد : 3116)
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ .
اپنے مرنے والوں کو لاالٰہ الا اللہ کی تلقین کرو ۔
(صحیح مسلم : 2125)
اسی طرح سچے دل سے لا إله إلا الله پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسے شخص کو قیامت کے دن رسول اللہ کی شفاعت نصیب ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ .
قیامت کے دن سب سے زیادہ میری شفاعت سے وہ شخص فیض یاب ہوگا، جو سچے دل سے «لا إله إلا الله» کہے گا۔
(صحیح بخاری : 99)
2 مرتے وقت پیشانی پر پسینہ آنا
سیدنا بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامایا :
الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ .
مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے۔
(سنن ترمذي : 982)
3 حج ادا کرتے ہوئے موت آنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے اسے کچل دیا۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا .
اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اسے دو کپڑوں میں کفن دو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو ، کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔
(صحیح بخاری : 1265)
4 جمعے یا جمعے کی رات موت آنا
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامایا :
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ .
جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
(سنن ترمذي : 1074)
5 اللہ کی راہ میں شہید ہونا
سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامایا :
لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَيَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ .
أن يموت شهيدًا في سبيل الله، أو وهو مُرابِط في سبيل الله، أو يموت بإحدى الميْتات التي يكون صاحِبُها في درجة الشهيد، وهي المطعون، والمبطون، والغريق، وصاحب الهدْم والحريق، والموت بذات الجَنْب، والمرأة يقتلها ولَدُها ، أي: تموت وهي حامل، أو بسبب الوضْع.
اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں، ( ۱ ) خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، ( ۲ ) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے، ( ۳ ) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، ( ۴ ) «فزع الأكبر» ( عظیم گھبراہٹ والے دن ) سے مامون رہے گا، ( ۵ ) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، ( ۶ ) بہتر جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔
(ترمذی : 1663)
6 نفاس میں موت آنا
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامایا :
(والمَرأةُ يَقتُلُها وَلَدُها جُمْعًا شَهادةٌ .
بچے کی وجہ سے عورت کا مرنا شہادت ہے ۔
(سنن دارمی : 2458)
7 اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے موت آنا
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامایا :
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے۔
(صحیح بخاری : 2480)
8 اپنی جان اور اہل کی حفاظت کرتے ہوئے موت آنا
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ .
جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے تو وہ شہید ہے ۔
(سنن ترمذی : 1421)
9 اللہ کی راہ پر پہرہ دیتے ہوئے موت آنا
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ .
سرحد پر ایک دن اور ایک رات پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر ( پہرہ دینے والا ) فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا، ( آئندہ بھی ) جاری رہے گا، اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا اور وہ ( قبر میں سوالات کر کے ) امتحان لینے والے سے محفوظ رہے گا۔
(صحیح مسلم : 4938)
10 مسلمان اچھی گواہی دیں
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واجب ہو گئی ہے ۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی، یا اس کے علاوہ الفاظ کہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واجب ہو گئی ہے ۔ عرض کیا گیا۔ اے اللہ رسول ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
شَهَادَةُ الْقَوْمِ الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ .
ایمان والی قوم کی گواہی ( بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے ) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
(صحیح بخاری : 2642)
11 اللہ تعالی سے ملاقات کو پسند کرتے موت آنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرے، اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرے، اللہ اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ ( شریح بن ہانی نے ) کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی : ام المومنین! میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ہے ( جس طرح وہ بیان کرتے ہیں ) تو ہم ہلاک ہو گئے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہلاک ہونے والا واقعی وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ہلاک ہوا ۔ ( بتاؤ ) وہ کیا حدیث ہے؟ میں نے عرض کی : انہوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور ہم میں ایسا کوئی نہیں جو موت کو ناپسند نہ کرتا ہو، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
وَلَيْسَ بِالَّذِي تَذْهَبُ إِلَيْهِ وَلَكِنْ إِذَا شَخَصَ الْبَصَرُ وَحَشْرَجَ الصَّدْرُ وَاقْشَعَرَّ الْجِلْدُ وَتَشَنَّجَتْ الْأَصَابِعُ فَعِنْدَ ذَلِكَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ .
( مفہوم کے اعتبار سے ) جس طرف تم گئے ہو وہ بات اس طرح نہیں ہے بلکہ ( وہ اس طرح ہے کہ ) جب نگاہ اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے اور سینے میں سانس اکھڑ رہی ہوتی ہے اور جلد پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انگلیاں ٹیڑھی ہو کر اکڑ جاتی ہیں تو اس وقت جو اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو ( اس وقت ) اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔
(صحیح مسلم : 8626)
12 سید الاستغفار پڑھے موت آنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : سیدالاستغفار یہ ہے کہ تو کہے :
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ .
اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر صبح ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔
(صحیح بخاری : 6306)
13 نيند كى دعا پڑھے موت آنا
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور پھر کہتے :
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ .
اور آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَالَهُنَّ ثُمَّ مَاتَ تَحْتَ لَيْلَتِهِ، مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ .
جس شخص نے یہ دعا پڑھی اور پھر اسی رات اگر اس کی وفات ہو گئی تو اس کی وفات فطرت پر ہو گی۔
(صحیح بخاری : 6315)
14 سنت پر موت آنا
امام مالك رحمہ الله فرماتے ہیں :
لو لقي الله رجل بملء الأرض ذنوباً . ثم لقي الله بالسنة
لكان في الجنة مع النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقاً .
اگر کوئی بندہ زمین برابر گناہوں کے ساتھ اللہ سے ملے لیکن اس کی موت سنت پر ہوئی ہو تو وہ جنت میں انبیاء ، اصدقاء ، شہداء اور صالحوں کے ساتھ ہوگا ۔اور یہ بہترین رفیق ہیں ۔
(ذم الكلام وأهله : 5/76-77)
امام أحمد فرماتے ہیں :
مَنْ مَاتَ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالسُّنَّةِ
مَاتَ عَلَى الخَيْرِ كُلِّهِ .
جس شخص کو اسلام اور سنت پر موت آئی اسے ہر طرح کے خیر پر موت آئی ۔
(سير أعلام النبلاء : 11/296)
معتمر بن سليمان فرماتے ہیں :
دخلت على أبي وأنا منكسر فقال : مالك ؟ قلت : مات صديق لي
قال : مات على السنة ؟ قلت : نعم .
قال فلا تخف عليه.
میں اپنے والد (سلیمان بن طرخان رحمہ اللہ جو ایک جلیل القدر تابعی تھے) کے پاس آیا اور کچھ پریشان سا تھا تو والد محترم پوچھنے لگے : تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا : میرا قریبی دوست فوت ہو گیا ہے ۔ تو پوچھنے لگے : کیا وہ سنت پہ فوت ہوا ہے؟ میں نے جواب دیا : جی بالکل ! کہنے لگے : پھر اسکے لئے غمگین ہونے کی ضرورت نہیں!
(شرح اعتقاد أصول السنة : 75/1 )
15 طاعون میں موت آنا
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ .
طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔
(صحیح بخاری : 2830)
16 پیٹ کی بیماری سے ، ڈوبنے سے اور دبنے سے موت آنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الشُّهَدَاءُ : الْغَرِقُ، وَالْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ ، وَالْهَدِمُ .
ڈوبنے والے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والے، طاعون میں مرنے والے اور دب کر مرنے والے شہید ہیں۔
(صحیح بخاری : 720)
17 جلنے کی وجہ سے موت آنا
سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ .
جل کر مرنے والا شہید ہے ۔
(سنن ابی داؤد : 3111)
18 مدینے میں موت آنا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا، فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا .
جو مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ وہاں مرے کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا ۔
(سنن ترمذی : 3917)
مدینے میں موت آنا بھی ایک طرح سے حسن خاتمہ کی علامت ہے کیونکہ مدینے میں مرنے والے شخص کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے ۔
19 کسی بھی اچھائی کی حالت میں موت آنا
ان کے علاوہ کسی بھی نیکی اور اچھے کام کی حالت میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ بَعَثَهُ اللہ عَلَيْهِ .
جس شخص کو جس حالت میں موت آئی ہو ، اللہ اسے اسی حالت میں اٹھائے گا ۔
(مسند احمد : 14373)
برے خاتمے کے علامات
1 چوری کرتے یا زنا کرتے موت آنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ .
جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا اور جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ۔
(سنن ترمذی : 2625)
قارئین کرام ! اس حدیث کے پیش نظر اگر چور کو چوری کرتے یا زانی کو زنا کرتے موت آجائے تو اس کی موت بغیر ایمان کی ہوگی جو سوء خاتمہ ہے ۔ العیاذ باللہ ۔
2 کلمہ نصیب نہ ہونا
علامة ابن القيم رحمه الله نقل کرتے ہیں :
أن أحد الناس قيل له وهو في سياق الموت: قل لا إله إلا الله، فقال: وما يغني عني وما أعرف أني صليت لله صلاة؟! ولم يقلها.
ایک آدمی کو موت کے وقت کہا گیا : لا إله إلا الله پڑھو تو کہنے لگا : اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوگا میں نہیں جانتا کہ میں نے کبھی نماز پڑھی ہو ۔ اور اس نے لا إله إلا الله نہیں پڑھا ۔
(الجواب الكافي : 205)
3 شراب کی عادت پر موت واقع ہونا
حافظ الذهبي رحمه الله نقل کرتے ہیں :
كان يجالس شراب الخمر، إنه حين حضره الموت فجاءه إنسان يلقنه الشهادة فقال له: اشرب واسقني ثم مات.
ایک شخص شرابیوں کا ہم نشین تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اسے ایک شخص نے کلمہ پڑھنے کی ترغیب دی ۔ لیکن اس نے کہا : خود بھی پیو مجھے بھی پلاؤ ۔
(الكبائر : 91)
4 شطرنج کھیلتے موت آنا
امام مجاہد فرماتے ہیں :
ما من میت یموت إلا مثل له جلساؤه الذين كان يجالسهم فاحتضر رجل ممن كان يلعب بالشطرنج . فقيل له : قل لا إله إلا الله فقال شاهك ثم مات . فغلب على لسانه ما كان يعتاده حال حياته .
جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کے سامنے اس کے ہم نشینوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ جن کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا تھا ۔ اسی پس منظر میں شرنج کھیلنے والے ایک شخص کے موت کا وقت قریب آیا تو اسے کہا گیا: لا إله إلا الله پڑھو ۔ لیکن وہ شاہک شاہک کہنے لگا ۔ اور مر گیا ۔ زندگی میں اس کی زبان پر جس لفظ کی پختہ عادت ہوگئی تھی مرتے وقت بھی اس کی زبان پر وہی لغویات جاری رہی ۔
(الکبائر : 91)
5 تجارت میں مگن ، حقوق اللہ کو بھولے موت آنا
ابن القيم نقل کرتے ہیں :
أخبرني بعض التجار عن قرابة له أنه احتضر وهو عنده، وجعلوا يلقنونه لا إله إلا الله وهو يقول: هذه القطعة رخيصة، وهذا مشتر جيد، هذه كذا .
مجھے ایک تاجر نے اپنے ایک تاجر رشتیدار کے متعلق بتایا کہ اس کی موت کے وقت وہ اس کے پاس تھا ، چناچہ اسے لا إله إلا الله پڑھنے کی تلقین کی گئی تو وہ کہنے لگا : یہ ٹکڑا بہت سستا ہے یہ خرید بہترین ہے اور یہ اس طرح ہے ۔ یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی ۔
(الجواب الكافي : 91)
مذکورہ بالا برائیوں کے علاوہ کسی بھی برائی کی حالت میں موت آنا سوء خاتمہ کی علامت ہے ۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔
محمد سلیمان جمالی سندھ پاکستان