سوال
میں آپ سے ایک اہم مسئلے کے متعلق شرعی رہنمائی (فتویٰ) چاہتا ہوں جو امریکہ کے ایک شہر میں مسلمانوں کو درپیش ہے۔
ایک جگہ جو اس وقت مسلمانوں کی نماز کے لیے استعمال ہو رہی ہے، اس کی ملکیت کے بارے میں سرکاری دستاویزات میں ایک سے زیادہ تنظیموں کے نام درج ہیں۔ اس ملکیت کے بارے میں معاملہ اس وقت ایک امریکی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
کیا ایسی صورتِ حال میں جب تک عدالت کوئی فیصلہ نہ کرے، مسلمانوں کے لیے وہاں نماز پڑھتے رہنا جائز ہے؟ یا اس وقت تک نماز روک دی جائے جب تک حقیقی مالک کا فیصلہ نہ ہو جائے؟
آپ کی شرعی رہنمائی ہمارے لیے باعثِ سعادت ہو گی۔ جزاکم اللہ خیراً
سائل: سید محمد اقتدار حیدر- امریکہ
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ایسی جگہ جہاں مسلمان پہلے سے نماز پڑھ رہے ہوں، لیکن اس کی ملکیت کا علم نہ ہو جسکا معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہو، تو ایسی صورت میں جب تک عدالت کی طرف سے کوئی واضح فیصلہ نہ آجائے، تب تک وہاں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، جب تک کہ حرمت کی کوئی دلیل نہ آجائے، اور اس جگہ نماز پڑھنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
اس لیے مسلمان وہاں حسبِ سابق نماز ادا کرتے رہیں، جب عدالتی فیصلہ آئے گا، تب اس کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
لیکن موجودہ صورتِ حال میں چونکہ وہاں پہلے سے نماز ادا کی جا رہی ہے، اس لیے وہاں نماز جاری رکھیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ