سوال
میں ایک بیوہ تھی 2013 میرے والد کی وفات کے بعد مجھے بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ان مشکلات کی وجہ سے میں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا تاکہ میری زندگی میں کوئی شخص ہو جو میری مشکلات میں میرے ساتھ ہو۔ نومبر 2015 میں میری شادی ایک شخص سے ہوئی اور ابتدائی دنوں میں ہی مجھے احساس ہو گیا کہ اس شادی سے میری مشکلات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گی کیونکہ وہ شخص بے روزگار تھا اور شادی کے فورا بعد ہی اس نے گھر کے تمام اخراجات کے لیے میری تنخواہ پر انحصار کرنا شروع کر دیا ، میرا خرچہ اٹھانے کی بجائے اپنے بوجھ بھی میرے اوپر ڈال دیے۔
ابتدائی دنوں میں 20 لاکھ کی خطیر رقم اسے اس غرض سے دی کہ وہ کوئی کاروبار شروع کرے لیکن وہ رقم بھی ڈوب گئی ۔اس کا رویہ اور زبان میرے ساتھ انتہائی نامناسب ہوتا تھا وہ اکثر مجھے اپنے گھر والوں کے سامنے گالم گلوچ کرتا تھا اور مجھے ڈرانے کے لیے یہ دھمکی دیتا تھا کہ میں تمہیں تمہاری ماں کے گھر بیچ دوں گا کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا میری ضعیف اور بیمار والدہ میری کمزوری ہے اور میں ان کو کسی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتی لہذا مجھے ڈرا دھمکا کرخاموش کروا دیتا تھا۔
اس نے کبھی بھی حق زوجیت ادا نہیں کی وہ اپنی جنسی تسکین کے لیے غیر فطری طریقے استعمال کرتا تھا اور مجھے کبھی بھی نان ونفقہ نہیں دیا بلکہ الٹا اپنے باپ، بہنوں ،اور بھانجوں کے لیے تحائف بھی مجھ سے لیتا تھا۔ وہ بے نماز اور دین سے انتہائی دور ہے، اس کی کمپنی بھی اچھے لوگوں کے ساتھ نہیں تھی لڑکیوں کے ساتھ دوستی تھی، ڈانس پارٹیوں میں جاتا تھا ،اور اکثر شراب نوشی بھی کرتا تھا وہ اپنے ایک دوست کو گھر بلاتا تھا شراب نوشی کے لیے اور شراب کے ٹرےبھی مجھ سے تیار کرواتا تھا۔
اگست 2019 میں اس نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا تو اس سلسلے میں بھی میں نے اس کی مالی مدد کی۔ دسمبر 2020 میں وہ پاکستان واپس آیا اور مارچ 2021 میں دوبارہ واپس چلا گیا اور تاحال وہ ملک سے باہر ہی ہے۔
میں یہ سارے مظالم اور زیادتیاں صرف اپنی والدہ کو پریشانی سے بچانے کے لیے سہتی رہی ، بالآخر میری والدہ کو ان سب باتوں کا علم ہو گیا اور جب میں نے والدہ کے ساتھ مل کے طلاق لینے اور اس کے تمام مظالم اور نا انصافیوں سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کیا اور اسے فون پہ آگاہ کیا تو اس نے فون پر بہت بدتمیزی کالم گلوچ اور دھمکیاں دی۔ میرے بار بار اصرار کرنے پر بھی جب اس نے طلاق نہیں دی تو میں نے عدالت سے رجوع کر لیا۔ عدالت نے میرے حق میں خلع کا فیصلہ 21 نومبر کو سنا دیا، میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنی تحریر کی تصدیق کرتی ہوں۔
مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات کتاب و سنت کے مطابق درکار ہیں:
1۔ عدالتی خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے ، کیا یہ خلع معتبر ہے اور میرا خلع ہو گیا ہے ؟
2۔ خلع لینے والی عورت کی عدت کتنی ہیں ؟ عدت کے بارے میں تفصیلا بیان کیا جائے
3۔ کبھی کبھی میری ماہواری میں بیماری کے سبب بہت تاخیر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات چار ماہ بعد حیض آتا ہے ، ایسی صورت میں عدت کیسے شمار کی جائے گی۔
فائزہ اشرف راولپنڈی، 25 نومبر 2024
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
خلع کی دو صورتیں ہوتی ہیں: بذریعہ عدالت خلع، اور ماورائے عدالت خلع۔
پہلی صورت بالاتفاق درست ہے، جبکہ دوسری کے متعلق بھی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فتوی صحیح بخاری میں موجود ہے:
“وأجاز عمر الخلع دون السلطان”. [بخاری کتاب الطلاق حدیث: 5273 ]
“ عمر رضی اللہ عنہ نے حاکمِ وقت کے بغیر بھی خلع جائز قرار دیا ہے ‘۔
یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ماورائے عدالت کے خلع کو صحیح سمجھتے تھے، جبکہ یہاں تو عدالت نے خلع کا فیصلہ کیا ہے اور عدالتی خلع کی شرعی حیثیت مسلّم ہے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر عدالت نے خلع دے دیا ہے تو سائلہ خاتون کا خلع ہوگیا ہے۔ خلع کی عدت عورت حاملہ نہ ہو تو ایک حیض ہے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں:
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا۔ [سنن الترمذی:1185]
اگر ماہواری غیر منتظم ہے اور بیماری کی وجہ سے حیض آنے میں کبھی کبھار چار ماہ تک تاخیر ہوجاتی ہے تو اسے حیض آنے تک انتظار کرنا ہوگا چاہے چار ماہ بعد ہی حیض آئے، لیکن اگر بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے ماہواری بالکل ہی نہیں آتی ہے تو پھر اس کی عدت ایک ماہ ہے۔
لہذا عدالت نے اگر خلع کی ڈگری جاری کردی ہے تو اس عورت کا خلع ہوچکا ہے اور چونکہ سائلہ کو ماہواری آتی ہے اگرچہ تاخیر سے آتی ہے، اس لیے اسکی عدت بھی ایک حیض ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ