سوال (4358)
ایک بھائی کا وراثت بارے سوال ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں، والدِ محترم نے اڑھائی مرلے کا مکان بنایا، جو تین کمروں اور ایک بیٹھک پہ مشتمل ہے، پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، بیٹیاں بیاہی گئیں، بیٹوں میں سے تین کی شادیاں ہوئیں تو گھر میں افراد زیادہ ہونے کی وجہ سے کمرے کم پڑ گئے، ایک بیٹے نے اپنی رہائش کے لیے قرض پکڑ کر چھت پر کمرہ بنا لیا، (کمرہ بنانے پر والد محترم راضی نہیں تھے لیکن ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے لائبریری بنانے کے بہانے کمرہ تعمیر کر لیا)، والدِ محترم کی زندگی میں کمرہ تعمیر ہو گیا اور وہ بیٹا والد کی حیات میں اُس کمرے میں تقریباً چار پانچ سال رہا، اب والد وفات پا گئے، اُس کمرے کا حصہ ادا کرنے کے حوالے سے بیٹے کا والد سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور والد اُس کمرے کا الگ سے حصہ دینے کے حق میں بھی نہیں تھے یہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا، (جب چھوٹے بیٹے نے بھی قرض پکڑ کر چھت پہ کمرہ بنانے کی خواہش ظاہر کی “اِس شرط کے ساتھ” کہ کل جب مکان فروخت ہوا تو مجھے میرے کمرے کے پیسے بھی ادا کیے جائیں، والد نے انکار کر دیا اور یہ بھی کہا پہلے جہاں کمرہ تعمیر کرنا ہے اس جگہ کے پیسے دو، تو چھوٹے بیٹے نے پھر کمرہ تعمیر نہیں کیا) اس موقع پر والد نے چھوٹے بیٹے کے سامنے اپنا یہ مؤقف رکھا کہ آج تم اپنے کمرے کا حصہ مانگو گے تو کل وہ بڑا بھی اپنے کمرے کا حصہ مانگے گا… اس لیے کسی کو کچھ نہیں ملنا. اب وراثت تقسیم کرنے کی کوشش جاری ہے، کیا مکان فروخت ہونے کے بعد بڑا بیٹا مکان میں سے اپنے حصے کے علاوہ اُس الگ کمرے کا بھی حصہ لے گا؟
جواب
آپ نے جو صورتِ حال بیان کی ہے، وہ شریعت کی روشنی میں وراثت و تصرفات کے اصولوں کے تحت دیکھی جائے گی۔
مسئلے کا خلاصہ: والد صاحب کے زیرِ ملکیت مکان پر ایک بیٹے نے اپنی ضرورت کے تحت والد کی مرضی کے بغیر (اور لائبریری کے بہانے) ایک کمرہ تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر کے لیے اس نے قرض لیا۔ والد نے نہ تو اس تعمیر کی اجازت دی، نہ اس پر رضا مندی ظاہر کی، بلکہ واضح طور پر کہا کہ کسی کو اس کمرے کا علیحدہ حصہ نہیں ملے گا۔ اور نہ ہی کوئی وصیت موجود ہے۔ والد کی وفات کے بعد اب مکان وراثت میں تقسیم ہونا ہے۔
حکم: مکان کی ملکیت والد کی تھی لہٰذا پوری عمارت (بشمول چھت، بنیاد، دیواریں، بالائی تعمیرات) والد کی ملکیت ہے۔ اولاد میں سے کسی کی تعمیر اگر والد کی اجازت و رضا کے بغیر ہوئی ہے تو وہ شرعی طور پر بطورِ عطیہ یا ملکیت شمار نہیں ہوگی۔ بیٹے کی تعمیر والد کی اجازت کے بغیر ہوئی یہ تعمیر اگرچہ والد کی وفات سے پہلے ہوئی، مگر نہ والد نے اس کی اجازت دی نہ اس پر کوئی مالی معاہدہ ہوا نہ ہی اسے بعد میں قانونی یا شرعی طور پر تسلیم کیا لہٰذا شرعاً یہ تعمیر باپ کی ملکیت میں شامل رہے گی۔ بیٹے کو اس کے بدلے وراثت میں الگ سے حصہ نہیں دیا جائے گا۔
اب جب والد وفات پا گئے ہیں تو یہ مکمل مکان (اس میں شامل وہ کمرہ بھی) تمام ورثاء میں قرآن و سنت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ بیٹے اور بیٹیوں کو ان کے مقرر کردہ حصے ملیں گے:
ہر بیٹے کو دو حصے، اورہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ ” لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ“ (النساء: 11) کے تحت۔
جہاں تک بات ہے بیٹے کا اخراجات کا دعویٰ کرنے کی تو اگر بڑا بیٹا کہے کہ “میں نے ذاتی خرچ سے کمرہ بنایا” اور اس پر واقعی قابلِ اعتماد گواہی ہو، تو بھی اس کا مطالبہ “بطورِ قرض یا اخراجات” دیکھا جائے گا، نہ کہ ملکیت۔لیکن چونکہ والد نے اس مطالبے کو زندگی میں ہی رد کر دیا تھا، اور کوئی معاہدہ موجود نہیں،
لہٰذا وہ یہ رقم بھی باقی ورثاء سے شرعی طور پر طلب نہیں کر سکتا۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ