سوال

ہم دو بھائی اور والد صاحب ہیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ والد صاحب کے گھر میں سب اکٹھے رہتے ہیں۔
میں نے سعودی عرب میں 8 سال محنت مزدوری کرکے پہلے 3سال والد صاحب کا اور باقی رشتے داروں کا قرض ادا کیا اور ساتھ گھر والوں کی خدمت بھی کی۔ اس کے بعد ایک کاروبار میں حصہ لیا اور باقی کے سال کی ذاتی کمائی اس کاروبار میں لگائی اور اب 7سال سے اس کاروبار کو چلا رہا ہوں ۔

کاروبار شروع ہونے  سے پہلے والد صاحب نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں۔ اُس وقت والد صاحب اور  بڑے بھائی کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا اور نہ بڑے بھائی کی ذاتی کمائی اس کاروبار میں شامل ہوئی۔

لیکن اب والد صاحب کہتے ہیں بھائی کو کاروبار میں حصہ دو کیونکہ

1) اس نے کاروبار کی نگرانی کی ہے جبکہ ساتھ اس نے تنخواہ بھی وصول کی ہے۔

2) والد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کچھ رقم ادهار لے کر اس کاروبار میں دی تھی جو کہ واپس بھی میں نے کر دی ہے ۔

3) والد صاحب کہتے ہیں میں نے 4لاکھ زمین بیچ کر اس کاروبار میں دیا تھا۔ جبکہ والد صاحب نے  4 لاکھ دوسرے بھائی کو بھی دکان کے لیے دیے ہیں ۔

والد صاحب الحمدللہ صاحب ثروت ہیں ۔ لیکن اب والد صاحب بڑے بھائی کو کاروبار میں زبردستی شریک کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ بیٹے کا مال والد کا ہوتا ہے اور والد بغیر اجازت دوسرے بھائی کو شریک کرسکتا ہے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ اس لیے کیا سب کچھ والد کا شمار ہوگا؟  اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جو باتیں بیٹے نے بیان کی ہیں، اگر یہ باتیں درست ہیں تو اس صورت میں باپ کا اپنے دوسرے بیٹے کو اس بیٹے کے کاروبار میں داخل اور شامل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مستقل کاروبار ہے اور اس کی اپنی آمدنی سے شروع ہوا ہے۔

باقی رہا باپ کا اس طرح کی احادیث سے استدلال کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ”. [سنن أبی داؤد: 3530]

’’تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے‘‘۔

ان احادیث سے اس طرح کا استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اس استدلال کے مطابق تو پھر مطلب یہ ہوا کہ بیٹا بھی مملوک (غلام) بن جاتا ہے اور باپ بیٹے کو بھی غلام کی طرح فروخت کر سکتا ہے۔

اس لیے باپ کا ان احادیث سے اس طرح کا استدلال درست نہیں ہے، بلکہ اس  ( لِوَالِدِكَ) میں لام اباحت کے لیے ہے کہ باپ تم سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، تمہارے مال سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، یعنی جب باپ کو ضرورت ہو تو بیٹے کا مال بغیر پوچھے استعمال کرسکتا ہے، لیکن اس کی بھی کچھ شرائط ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ باپ کسی ایک بیٹے سے مال لے کر دوسرے بیٹے کو نہیں دے سکتا، کیونکہ اس سے دونوں بیٹوں کے درمیان دشمنی پیدا ہوگی اور یہ ایک بیٹے کو دوسرے پر ترجیح دینے کے زمرے میں آئے گا، جو کہ ممنوع ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عطیہ اور ہبہ کرتے وقت اولاد کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے۔ [صحیح البخاری: 2587] اس لحاظ سے  ایک بیٹے کا مال اٹھاکر دوسرے کو دینا تو بالاولی ناجائز ہوگا۔

لہذا سوال میں کی گئی وضاحت اگر درست ہے تو اس کے مطابق باپ اپنے دوسرے بیٹے کو اس بیٹے کے کاروبار میں شریک نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ کاروبار بیٹے کا ذاتی ہے، باپ کی جائیداد کا حصہ نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ