سوال
ایک عالمِ دین کے حوالے سے ایک میسیج سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، اس حوالے سے وضاحت فرما دیں، میسیج کچھ اس طرح ہے:
’مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے ایک مرتبہ درس کے دوران اپنا ایک معمول بیان فرمایا کہ میں دن بھر کئی فیصلے کرتا ہوں، مجھے دن بھر کئی حاجات پیش آتی ہیں، دن بھر مصروفیات کی وجہ سے ہر فیصلے سے قبل استخارہ نہیں کر سکتا، اور بار بار نوافل نہیں پڑھ سکتا، بسا اوقات مصروفیات میں یاد بھی نہیں رہتا، تو میرا برسوں کا یہ معمول ہے کہ میں دو نفل پانچ نیتوں کے ساتھ پڑھتا ہوں، کیونکہ نوافل میں متعدد نیتیں کی جا سکتی ہیں۔ حضرت فرمانے لگے وہ پانچ نیتیں یہ ہیں:
(1) پہلی نیت صلاۃ التوبہ کی۔ (2) دوسری نیت صلاۃ الحاجات کی۔ (3) تیسری نیت صلاۃ الشکر کی۔
(4) چوتھی نیت صلاۃ الاستعانہ کی۔ (5) پانچویں نیت صلاۃ الاستخارہ کی۔
ان پانچ نیتوں سے دو نفل پڑھتا ہوں۔ فرمانے لگے ان پانچ نیتوں کی برکت سے مجھے دن بھر کے سارے کاموں میں بہت آسانی اور عافیت ہو جاتی ہے۔
صلوۃ التوبہ سے دن بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں،صلوۃ الحاجات سے دن بھر کی ساری ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں،شکر سے ان تمام نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے اور پھر صلاۃ الاستعانہ سے دن بھر ہر کام میں اللّٰہ تعالی کی خاص الخاص مدد حاصل رہتی ہے۔صلاۃ الاستخارہ کی نیت سے دن بھر مجھے فیصلہ کرنے میں بالکل تنگی نہیں ہوتی، بلکہ دو اور دو چار کی طرح میرے سامنے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ ہونا چاہیے۔
استاد محترم نے فرمایا یہ عمل جو دو رکعت نفل پانچ نیتوں کے ساتھ پڑھنا دن بھر رجوع الی اللّٰہ کا طریقہ ہے۔ اس طرح انسان کا گویا دن بھر اللّٰہ تعالی کی طرف رجوع رہتا ہے۔
واقعی مفتی صاحب نے بڑی کام کی بات بتائی ہے۔ میں نے جب سے یہ پڑھا ہے الحمدللّٰہ آج تک ان نوافل کا معمول رکھا ہوا ہے اور ان نوافل کی برکت سے بہت فوائد و ثمرات سے مستفید ہوں‘۔
مشائخ کرام اس کے متعلق وضاحت سے رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ عمل درست ہے اور اس طرح ایک ہی نماز میں مختلف نیتوں کو شامل کرنا شرعی طور پر درست ہے؟؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ایک ہی نماز میں اس طرح مختلف نمازوں کی نیت کو جمع کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، سوائے اس کے کہ اتفاقاً ایسا ہو، جیسے کوئی شخص وضو کر کے مسجد میں داخل ہو اور تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوء اور سنتوں کی نیت کر لے، تو اسے ان تینوں نمازوں کا اجر مل جائے گا۔ لیکن خصوصی طور پر صلاۃ التوبہ، صلاۃ الحاجات، صلاۃ الشکر، صلاۃ الاستعانۃ اور صلاۃ الاستخارہ کو ایک ہی دفعہ دو رکعت نماز میں جمع کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔
ان میں سے ہر نماز کے ثبوت اور عدم ثبوت کی تفصیل درج ذیل ہے:
- صلاۃ التوبہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے بعد دو رکعت نفل ادا کر کے اللہ سے مغفرت طلب کرنے کی ترغیب دی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ. سورة آل عمران آية: 135 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ”. [سنن ابو داؤد: 1521]
’’کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
«( وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ )»
’’متقی وہ لوگ ہیں جو اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھیں، تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ بخش دے۔ اور یہ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر نہیں اڑتے اور نہ اصرار کرتے ہیں‘‘۔
البتہ، اس کا کسی اور نماز کے ساتھ التزام ثابت نہیں ہے۔
- صلاۃ الحاجات:
حاجت و ضرورت کے لیے دعا کرنا ثابت ہے، لیکن کسی مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھنے کا ذکر صحیح احادیث میں نہیں ملتا۔ بعض روایات میں “صلوۃ الحاجہ” کا ذکر ہے، مگر وہ ضعیف ہیں۔ شریعت نے حاجت کے وقت براہِ راست دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے:
“اُدۡعُوۡا رَبَّكُمۡ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً”. [الاعراف: 55]
’’اور اپنے رب سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرو‘‘۔
- صلاۃ الشکر:
شکر کے طور پر “سجدۂ شکر” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا آپ کو بشارت دی جاتی تو آپ اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ [سنن أبی داؤد: 2774]
لیکن “صلوۃ الشکر” کے نام سے کوئی مستقل نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام یا تابعین سے ثابت نہیں ہے۔
- صلاۃ الاستعانۃ:
اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لیے عمومی نوافل پڑھنا درست ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ؕ وَاِنَّهَا لَكَبِيۡرَةٌ اِلَّا عَلَى الۡخٰشِعِيۡنَۙ”. [البقرہ: 45]
’’صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگو‘‘۔
مگر خاص “صلوۃ الاستعانۃ” کے نام سے کوئی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
- صلاۃ الاستخارہ:
استخارہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مستقل نماز کا حکم دیا ہے، جس کے بعد استخارہ کی دعا پڑھی جاتی ہے۔ حدیث میں ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہیں کوئی اہم معاملہ درپیش ہو، تو دو رکعت نماز پڑھو، پھر دعائے استخارہ پڑھو‘‘۔ [صحیح البخاری: 1162]
لیکن اس میں بھی کسی اور نماز کی نیت کو شامل کرنے کا ذکر اور ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ملتا ہے۔
نماز ایک عبادت ہے، جس کا مکمل طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سکھایا ہے۔ جب کسی عمل کی صریح دلیل قرآن و حدیث میں نہ ہو، تو وہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ”. [صحیح البخاری: 2697]
جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی، تو وہ مردود ہے۔ [صحیح بخاری: 2697]
کسی بھی عالم یا بزرگ کے عمل کو بنیاد بنا کر کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا اور اسے دین میں لازم سمجھ کر اپنانا شخصیت پرستی اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے، دو رکعت نفل میں پانچ مختلف نمازوں کی نیت کو یکجا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، ایک مسلمان کو ایسے اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔
لہٰذا ہر نماز کو اس کے مسنون طریقے کے مطابق الگ الگ پڑھیں، پانچ نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین سے نہیں ملتا، شریعت میں نئی چیز ایجاد کرنا بدعت کہلاتا ہے، دین میں کسی بھی چیز کو اختیار کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کے عمل کو دیکھنا ضروری ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ