اعتدال اور آدابِ اختلاف کی ضرورت
تاثرات
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن
1️⃣امتِ مسلمہ کی راہ نمائی اور فلاح و بہبود کے لیے مفتیان عظام کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ دینِ اسلام کی صحیح تفہیم ،روز مرہ کی زندگی میں پیش آمدہ شرعی مسائل کا حل ،انہی کے مرہون منت ہے۔
دن ،رات ،صبح وشام،بے لوث اور بے غرض ہوکر یہ لوگ عامۃ الناس کی راہ نمائی فرماتے ہیں ۔ فری کونسلنگ ان سے بہتر شاید ہی کوئی فراہم کر سکتا ہو ۔
2️⃣موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے اس طبقے کے پیغامات کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ان کے فتاوی اور اقوال و افعال کادائرہ اثر بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں مسلسل کچھ ایسے موقف اور فتاوی سننے کو ملے ہیں جو اعتدال اور وسطیت کی بجائے شدت اور انتہا پسندی پر مبنی محسوس ہوئے ،اس تناظر میں یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
3️⃣دینِ اسلام میانہ روی، آسانی اور حکمت کا دین ہے۔ اختلافِ رائے کوئی نئی بات نہیں، یہ عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج تک موجود رہا ہے اور کسی حد تک یہ ایک فطری امر ہے۔ تاہم، اس اختلاف کا اظہار کس پیرائے میں کیا جائے ؟ یہ پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
پھر علما کے ہاں اختلاف کی بھی دو قسمیں ہیں ،اختلاف سائغ کہ جس میں اختلاف کی ٹھوس بنیادی وجوہات ہوتی ہیں ۔ہر فریق کے پاس مضبوط شرعی دلائل بھی ہوتے ہیں ۔اس نوعیت کے اختلاف میں شدت پسندی، انتہا پسندی اور دوسروں کی آراء کو یکسر مسترد کر دینا مناسب نہیں ہوتا۔
بالخصوص ایسے فقہی مسائل جن میں، بین المسالک اختلاف پایا جاتا ہے یا ایک ہی مسلک سے وابستہ علماء میں مختلف آراء موجود ہوں ،اور آراء کے حاملین شرعی دلائل بھی رکھتے ہوں ، وہاں مزید احتیاط اور وسعت نظری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے مسائل میں جہاں دلائل کی بنیاد پر ایک سے زائد آراء کی گنجائش موجود ہو، وہاں کسی ایک رائے کو حتمی اور واجب قرار دینا اور دوسری رائے کو بدعت یا گمراہی ٹھہرانا امت میں انتشار کا سبب بنتا ہے۔
اختلاف کی ایک قسم یہ ہے اور دوسری قسم کا اختلاف اختلاف غیر سائغ ہے،یعنی جس کے پیچھے کوئی ٹھوس شرعی دلیل نہیں ہوتی ،بس اتباع آباء،ہوی پرستی ،ضد و ہٹ دھرمی ،جہالت یا اس طرح کے دیگر اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔اپنی ہٹ دھرمی ،جہالت ،ہوی پرستی کو ثابت کرنے کے لیے تحریف وتاویل سے کام لیتے ہوئے دلائل تراش لیے جاتے ہیں ۔اس میں بھی اسلوب بیان اگرچہ شائستہ ہی ہونا چاہیے لیکن اس قسم کے بلاوجہ اختلاف میں احقاق حق اور ابطال باطل پر فوکس ہوتا ہے۔۔جیسے امت میں پھیلے ہوئے شرک وکفر کے بعض ایسے اعمال جن کے پیچھے کوئی دلیل موجود نہیں ،وہ سراسر گمراہی ہیں ۔اسی طرح واضح قسم کی بدعات وغیرہ بھی اختلاف غیر سائغ کے قبیل سے ہیں ۔
4️⃣ دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض مفتیان کرام اختلاف کی نوعیت دیکھے بغیر ہر مقام پر اور ہر مسئلے میں ایک ہی لب ولہجہ رکھتے ہیں۔
جس شدت کے ساتھ شرک کی تردید کرتے ہیں ،اسی شدت اور اسی لہجے میں فروعی فقہی مسائل کو بھی بیان کرتے ہیں۔
اور اتنی دو ٹوک نوعیت کے ساتھ کہ جیسے وہ صاحب وحی ہیں اور دیگر ان پر ایمان لانے کے پابند ہیں ۔
5️⃣ اسی طرح احکام شرعیہ کے بھی فقہا کے ہاں درجات ہیں ،کچھ فرائض کے درجے میں ہیں ،بعض احکام مستحبات اور سنن کی نوعیت کے ہیں ۔اسی طرح ممنوعات کی بھی درجہ بندی ہے کچھ حرام ہیں اور کچھ مکروہات ۔
ان مسائل میں بھی بعض مفتیان کرام ایک ہی درجے میں احکام صادر کرتے ہیں ۔
بعض اوقات بےبجا مبالغہ محسوس ہوتا ہے اور کہیں بے محل شدت نظر آتی ہے،کہیں افراط ہےاور کہیں تفریط ۔
مثال کے طور پر، نماز عید پڑھ کر خطبہ ترک کرنے والوں کے بارے میں ایک صاحب شد و مد سے یہ کہ رہے تھے کہ خطبہ سنے بغیر چلے جانے سے نماز عید ہی نہیں ہو گی۔
اسی طرح، نماز عید کے اجتماع میں مائیک پر تکبیرات کہنے کو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ایک مفتی صاحب بدعت قرار دے رہے تھے۔یہ بھی غلو اور شدت پسندی کی ایک مثال ہے تکبیرات سنت سے ثابت ہیں ۔انہی بلند آواز سے کہنا بھی مشروع ہے۔ عید کے اجتماع میں نظم و ضبط،یاد دہانی اور بچوں کی تربیت کے لیے مائیک پر تکبیرات کہی جاتی ہیں ۔ اسے دو ٹوک بدعت قرار دینا سخت محل نظر ہے
قربانی میں کٹے کا مسئلہ بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جہاں خود اہل حدیث مکتب فکر کے علما میں نمایاں اختلاف ہے ۔ مجوزین کے نزدیک جس طرح بکری اور بھیڑ دونوں کے لیے “الغنم” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں بھینس اور گائے دونوں ہی کے لیے بقر کا لفظ مستعمل ہے۔ ہمیں کس سے اتفاق ہے اور کس سے اختلاف اس سے قطع نظر،سر دست یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس طرح کے اختلافی مسائل میں دوسرے کو سپیس دینا ضروری ہے۔۔ لیکن سوشل میڈٰیا پر دیکھا گیا کہ بعض مفتیان عظام کٹے کی خرید و فروخت سے منڈی میں پہنچ کر علی الاعلان روک رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا عوامی نفسیات کو دیکھتے ہوئے ایسے متشدد قسم کے لوگوں کو زیادہ پروموٹ کرتا ہے کیونکہ ان کی ساری توجہ ریٹنگ اور ویورشپ پر ہوتی ہے۔
یاد رکھیں ایسے لوگ جو آپ کو دوسرے مسلک کے خلاف اس طرح اندھا دھند چڑھائی کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں ،یہ ایک ہی مسلک کے لوگوں کے درمیان بھی انتشار و افتراق کا باعث بنتے ہیں ۔
عموما مسلکی حمیت میں ایسے لوگوں کو بعض علما بھی پروموٹ کر رہے ہوتے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قبیل کے لوگوں کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔
6️⃣ اہل حدیث مسلک کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کو براہ راست حجت مانتے ہیں اور تقلیدِ جامد سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم اپروچ ہے اور قابل تعریف بھی ،تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر مسالک کے فقہی نقطہ نظر کو یکسر باطل قرار دے دیا جائے۔ ہر مسلک کے علماء نے اپنے دلائل کی بنیاد پر اجتہاد کیا ہے اور ان کے بھی اپنے دلائل ہیں۔
شدت پسندی اور اپنی رائے کو حتمی سمجھنا کسی بھی عالم دین کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اس سے دعوت و تبلیغ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور امت کے اندر دوریاں بڑھتی ہیں۔ امت کو متحد رکھنے اور انہیں صحیح راستے پر لانے کے لیے حکمت، نرمی اور تحمل کا رویہ اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ پیغام محض ایک خیرخواہی ہے اور اس کا مقصد امت کی بھلائی اور اتحاد ہے۔ تمام علماء دین کی خدمات قابلِ قدر ہیں، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر امت کو صحیح سمت دیں اور انہیں افتراق و انتشار سے بچائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔