سوال (5931)
افغانستان میں اہلِ حدیث (سلفی) علما کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ ایسے علما جنہوں نے پوری زندگی توحید خالص، سنت صحیحہ، اور شرک و بدعت کے خلاف آواز بلند کی — آج وہ یا تو شہید ہو چکے ہیں، یا جیلوں میں سڑ رہے ہیں، یا خاموشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ طالبان حکومت، جو خود کو اسلامی نظام کے دعوے دار کہتے ہیں، درحقیقت ایک مخصوص فقہی مسلک کو طاقت کے زور پر نافذ کر رہے ہیں۔ جو ان سے اختلاف کرے، وہ “داعشی”، “خارجی”، “فتنہ پرور” اور آخرکار “واجبِ قتل” قرار پاتا ہے۔
شہید سلفی علما کے نام
شیخ ابو عبیداللہ متوکل کابل کے معروف اہلِ حدیث خطیب، اغوا کے بعد لاش برآمد ہوئی۔
مولوی محمد نبی محمدی شرعی جلسوں میں عقیدہ توحید کی وضاحت کرتے تھے، بغیر مقدمے کے قتل کر دیے گئے۔
شیخ اسماعیل افغان ننگرہار کے مشہور سلفی محدث، درسِ حدیث دیتے ہوئے حملے میں شہید کیے گئے۔
مولوی فہیم اللہ حقانی لوگر میں ایک جامع مسجد کے امام، نمازِ فجر کے بعد طالبان اہلکاروں نے گولیاں مار کر شہید کیا۔
مولوی حنیف اللہ بشر صوبہ کنڑ کے معروف مدرّس، متعدد بار دھمکیاں دی گئیں، آخرکار اغوا کے بعد ان کی لاش ویرانے سے ملی۔
مولوی عبدالرحمن سالک — صوبہ خوست کے سلفی عالم، گرفتاری کے بعد ان پر داعــ ـشی ہونے کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا۔ اور ایک مزید خوبصورت اور مستند نام
شیخ جمیل الرحمن سلفی رحمہ اللہ جنہیں بے دردی سے قتل کیا گیا
یہ فہرست مکمل نہیں صرف ان علما کے نام ہیں جن کے بارے میں معلومات باہر آ سکی ہیں۔ متعدد علما کی نہ لاش ملی، نہ کوئی خبر۔
شعائرِ اہلِ حدیث پر مکمل پابندی
طالبان نے سلفی علما کی مساجد پر قبضہ کر کے ان میں درج ذیل شعائر پر مکمل پابندی لگا دی:
رفع یدین — نماز کے اندر ہاتھ اٹھانے کو “بدعت” قرار دے کر ممنوع کر دیا گیا۔
آمین بالجہر — سورۃ الفاتحہ کے بعد آمین بلند آواز سے کہنے والے نمازیوں کو مارا گیا، بعض کو گرفتار بھی کیا گیا۔
بغیر تقلید کے دین پر عمل — عوام میں ایسے افراد پر نظر رکھی جاتی ہے جو سنت کے مطابق وضو یا نماز کرتے ہیں۔
سنت کی روشنی میں جنازے یا نمازِ قصر پڑھنے پر سوالات، دھمکیاں، اور کبھی کبھار تشدد کیا جاتا ہے۔
مدارس اور جامعات پر کریک ڈاؤن
طـ ــالبـ ــان حکومت نے سلفی مدارس کو بند کرنے کی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا:
▪ ننگرہار، کنڑ، پکتیا، اور لوگر میں 60 سے زائد اہلِ حدیث مدارس بند کر دیے گئے۔
▪ سلفی طلبہ کو طـ ــالبان مدارس میں زبردستی داخل کیا گیا یا گھر واپسی پر مجبور کیا گیا۔
▪ درسِ حدیث، تفسیر، اور عقائد کے دروس بند کر دیے گئے۔
▪ کئی سلفی مدرسین کو “داعشــ ـی مربی” کہہ کر حراست میں لیا گیا اور بعد میں لاپتہ کر دیا گیا۔
مساجد سے امامت کا خاتمہ
▪ سلفی ائمہ کو زبردستی ہٹایا گیا، کئی کو شہید کیا گیا۔
▪ بعض علاقوں میں دیوبندی مسلک کے افراد کو بطور “نگران امام” مقرر کیا گیا تاکہ نمازیں حنفی فقہ کے مطابق ہوں۔
▪ امامت سے انکار کرنے پر بعض خطبا کو برہنہ کر کے مارا گیا، بعض کی داڑھیاں مونڈ دی گئیں۔
▪ نماز جمعہ کے خطبے پر اگر توحید یا بدعت کے خلاف کچھ کہا جائے تو فوراً گرفتار کیا جاتا ہے۔
مذہبی نسل کشی: عقیدے کی بنیاد پر خون بہانا
یہ سب کچھ صرف فقہی اختلاف کی وجہ سے نہیں ہو رہا — بلکہ یہ ایک منظم مذہبی نسل کشی ہے۔ طالبان صرف اہلِ حدیث کو نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے نظریہ کو پھیلا رہے ہیں جو بلا تقلید، بلا تعویذ، اور بلا وسیلہ براہِ راست اللہ کی بندگی سکھاتا ہے۔
▪ عوامی اجتماعات میں سلفی علما کو “خوارج” کہہ کر تضحیک کی جاتی ہے۔
▪ بازاروں میں جب سلفی لباس والے افراد نظر آئیں تو ان سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔
▪ کئی علاقوں میں اہلِ حدیث گھروں کو بھی طالبان سرچ آپریشن کا نشانہ بناتے ہیں۔
خاموشی جرم ہے۔
آج جو بھی شخص افغانستان میں طالبان کے “اسلامی نظام” کو خالص دین قرار دیتا ہے، وہ یا تو لاعلم ہے یا پھر ظالموں کا حمایتی۔ ایک ایسا نظام جو کتاب و سنت کے حامل علما کو قتل کرے، جو سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کو جرم سمجھے، وہ کبھی “خلافتِ اسلامیہ” نہیں ہو سکتی۔
جواب
یہ شرمناک حرکت ہے، واقعتا اسلام کے نام پر علماء پر ظلم و ستم اور ان کو قتل کرنا درست نہیں ہے. لیکن اس میں نام نہاد امارت اسلامی افغانستان اکیلا نہیں ہے اور بھی کئی ’اسلامی ممالک’ اس فہرست میں موجود ہیں۔
مصر کے فراعنہ جو علماء کے ساتھ کر رہے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح شیعہ حضرات کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کریں گے کہ ایران میں اہل سنت پر کیا کیا ظلم ڈھائے جا رہے ہیں!
سعودیہ میں علماء کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ کس سے مخفی ہے؟
ازبکستان، طاجکستان، برونائی وغیرہ ریاستوں کی زمین بھی اہل حق کے لیے تنگ کر دی گئی ہے۔
لیکن آواز اٹھانے کا اصول ہمارے ہاں خاصا جانبدارانہ ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ