افغانیوں کی بے وفائی

شاید ہی تاریخ کے قرب و جوار اور گرد و نواح میں اتنی بے لوث، غیور و جی دار وفائیں کسی قوم نے کسی دوسری قوم کے ساتھ نبھائیں ہوں، جتنی ہم نے افغانستان کے ساتھ وفا نبھانے میں انتہا کر دی تھیں۔دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ناٹو اتحاد سات اکتوبر 2001 ء کو افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ نیپام، کلسٹر اور ڈیزی کٹر بموں سے افغانستان کو جھلسا کر رکھ دیا تھا۔ تاریخ کے ان بھیانک لمحات میں پاکستان نے ایسی وفائیں نبھانے کا چپکے اور راز داری کے ساتھ آغاز کیا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں بھی اس سے بالکل بے خبر رہیں۔ آپ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ مودت اور محبت کے بارے میں غور و فکر کریں گے تو صدیوں تک کھوجنے، تلاشنے اور تاریخ کو کھنگالنے کے باوجود شاید ایسی قربانیاں کہیں بھی دِکھائی نہ دیں، جو پاکستان نے افغانستان کے لیے دیں۔سی آئی اے کے اس دور کے چیف، جنرل مائیک مولن نے خود تسلیم کیا کہ ” افغانستان میں امریکا کو شکست پاکستان نے دی “آج امیر خان متقی اپنے محسن اور مربی پاکستان کو وفاؤں کا صلہ یہ کَہ کر دے رہا ہے کہ ” افغانوں کے حوصلوں کو مت آزمانا، ہمیں چھیڑنے سے پہلے امریکا، ناٹو اور سوویت یونین سے پوچھ لو ” یہ بے وفا اور بے مروت شخص یہ بالکل ہی فراموش کر چکا ہے کہ جن سپر پاورز کو تم نے شکست دی، وہ ہمارے پوچھے بغیر ہی یہ کَہ چکی ہیں کہ ” ہمیں شکست پاکستان نے دی تھی ” تمھارے بازوؤں میں ساری توانائی اور تمھارے لہجے میں تمکنت اور رعنائی تو پاکستان نے ہی پیدا کی تھی اور اگر تمھارے اندر وفا کی کوئی ایک آدھ رمق اور رسم باقی ہے تو ذرا سا مزید ماضی میں جھانک لیں کہ
جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو اس وقت بھی تمھارے پاس وسائل اور جنگ لڑنے کے لیے اسلحہ تک نہیں تھا۔تم پوری دنیا میں تنہا تھے اور اکلاپے کا روگ ہی تمھیں نیست و نابود کرنے کے لیے کافی تھا۔ مگر پاکستان نے نہ صرف تمھیں خوفِ تنہائی سے نجات دی بلکہ ایک چیختی چنگھاڑتی سپر پاور سوویت یونین کی ناک میں ایسی نکیل ڈالی کہ وہ آج تک سنبھل نہ پائی۔ جاؤ! ذرا جا کر سوویت یونین کے دکھیارے اور لیر و لیر وجود سے پوچھو کہ تمھارے نام کی سپیلنگ تک کس نے مختصر کر ڈالیں؟ وہ جواب میں پاکستان ہی کا نام لیں گے۔ ان دگرگوں حالات میں افغان مجاہدین کو اسلحہ، تربیت اور ساری قوت پاکستان نے ہی فراہم کی تھی۔ جلیل مانک پوری نے کہا ہے کہ:-
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے۔
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری
مگر افغانیوں پر چار پھولوں کے بجائے ان گنت احسانات تھے اور وہ یہ سب کچھ بھول کر بھارت کے ساتھ سراب محبتوں کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہو گیا ہے۔
امیر خان متقی سمیت سب افغانی ذرا یاد کریں ان مصائب و آلام سے لدی ساعتوں کو جب امریکا اور دنیا کی سب سے طاقت ور فوجیں دو عشروں تک افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کر نحیف و ناتوں ہو چکی تھیں تو اس ساری جنگ میں حکمت و دانائی اور قوت و توانائی پاکستان نے کھپا دی تھیں۔ لاکھوں پاکستانی اس جنگ میں شہید ہوئے، آج بے وفائی کے خمیر میں گُندھے تم لوگ بھارت کے ساتھ معانقے اور جپھیاں ڈال کر پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہو۔ امیر رضا مظہری کا شعر ہے:
تم کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
تم کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
تمھیں یہ بات بالکل فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہی جو جنگ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا نقشا بدلنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کو شکست دینے میں بھی پاکستان کا کردار تھا اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بھی پاکستان نے ہی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے
پاکستان نے اپنی سرزمین، اپنے وسائل، اپنے لاکھوں شہری اور فوجی قربان کیے۔ افغانستان اگر آج آزاد ہے تو اس کی بنیاد پاکستان کے جری سپوتوں نے رکھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کا غلغلہ بلند کیا، ہم نے ” افغان باقی۔۔۔کوہسار باقی “ کے نعرے بلند کیے، ہم نے تمھاری جنگیں اس اسلوب کے ساتھ لڑیں کہ دینا آج تک ششدر ہے ہم نے تمھارے زخموں پر پھاہے رکھے، اور لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آباد کیا مگر افسوس آج ہماری بلی ہمیں کو میاؤں کہ رہی ہے۔ افغانستان کو ایسی بھیانک غلطی کا مرتکب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ جن کا ازالہ کسی طور ممکن نہ ہو اور افغانستان ایسا اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ بھارت کی سراب دوستی کے غول سے باہر نکلے گا۔ بہ صورتِ دیگر بھارت ایسی فاش غلطیاں افغانستان سے ضرور کروائے گا۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: اپنے لیے کوئی خفیہ نیکی ضرور کریں!