سوال (469)
ایک عورت کو سات ماہ کا حمل ہے ، کئی ایک ڈاکٹرز کو چیک اپ کروا چکے ہیں ، ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ بچے کا دل مکمل نہیں ہے ، اس کو فوری ختم کروا دیں زچہ کی جان بھی خطرے میں ہے ۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ کیا ڈاکٹرز کی بات مان لینی چاہیے یا نہیں ؟
جواب
ڈاکٹرز کا کہنا وحی الٰہی نہیں ہوتا ہے ، ڈاکٹرز صرف مسئلے کا ایک پہلو دیکھ رہے ہیں ، جب کہ شریعت اسلامیہ تمام پہلوؤں کو دیکھتی ہے ، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات یقینی نہیں ہے کہ بچے کا دل مکمل نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے کہنا ہے کہ حمل ساقط کردیا جائے ، لیکن ڈاکٹرز کبھی یہ نہیں بتائیں گے اسقاط حمل سے عورت کے اندر کس قدر پیچیدگیاں پیدا ہونگی ، کتنی بیماریاں اس کو لگیں گی ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مستقل بانجھ بھی ہو سکتی ہے ، یہی ان کا ہدف ہے ، لہذا اس بچے کو دنیا میں آنے دیں ، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر شاکر ، صابر اور متوکل رہیں ، اللہ تعالیٰ بہتر کریں گے ، اگر انہوں نے حمل کو گرا دیا ہے تو جسمانی اور شرعی نہیں بلکہ بچے کی ماں کئی نفسیاتی بیماریوں کی مریض ہو جائے گی ، جن میں ہسٹریا بھی شامل ہے ، وہ بچہ خوابوں میں آکر اس کو ڈرائے گا وہ پاگل ہو جائے گی ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
اکثر و بیشتر ڈاکٹرز والدہ کی جان کے بچانے کو بنیاد بنا کر اسقاط حمل کا مشورہ دیتے ہیں ، اگر بچہ دنیا میں آئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، دنیا میں کئی بچے ناقص الخلقت ہوتے ہیں ، اس میں ماں باپ کا دخل نہیں ہے ، اس کی جتنی زندگی ہوگی وہ جیے گا ، سوال میں اس بات کو زیر بحث نہیں لایا گیا ہے کہ ایک کی وجہ سے دوسرے کی جان کو خطرہ ہے ، یقینا ماں کی جان بچانا اولی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس مرحلے میں اسقاط حمل کا انتخاب کیجیے۔
فضیلۃ العالم قمر حسن حفظہ اللہ