سوال (4917)
سیدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں: ” اگر میرے اونٹ کی رسی بھی کھو جائے تو میں اسے بھی الله کے کلام میں پالوں گا” [روح المعاني للآلوسي: ٩٨/١٤]
اس کا مطلب سمجھا دیں اللّٰہ کے کلام میں پا لوں گا اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب
یہ قول اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ:
قرآن ایک جامع کتاب ہے، جو صرف عبادات، عقائد اور آخرت کے بیانات پر مشتمل نہیں، بلکہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہدایت اور اصول فراہم کرتی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک قرآن ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی رہنمائی کرتا ہے، خواہ وہ اونٹ کی رسی جیسے معمولی معاملے سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔
“لفظی اور اصولی ہدایت کا فرق”:
یہ بات درست ہے کہ قرآن میں اونٹ کی رسی کا لفظی ذکر موجود نہیں، مگر: قرآن اصول، اشارات، اور قواعد کی صورت میں ہر مسئلے کی بنیاد فراہم کرتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی چیز گم ہو جائے تو قرآن ہمیں صبر، تحقیق، دیانتداری، اور دعا کا حکم دیتا ہے، اس طرح عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان تدبر کرے تو ہر مسئلے کا حل قرآن میں موجود پائے گا۔واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ