سوال (2221)

اگر قرآن مجید شفا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کا قیام کی وجہ سے پاؤں کی ایڑیاں مبارک کیوں سوج جاتی تھی؟

جواب

شرعی احکام پر مبنی سوال کرنا جائز بلکہ ضروری ہے، لیکن فرضی سوال اور ذہنی اختراع پر مبنی یا لایعنی قسم کے سوالات یہ بالکل مناسب نہیں ہے، آپ کا جواب آپ کے سوال کے اندر موجود ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کا سوجنا ان پر ورم کا ہونا طویل قیام، رکوع، سجود کے سبب ہوتا تھا کسی مرض کی وجہ سے ہرگز نہیں۔
آج بھی جب ہم گھنٹوں پر محیط سفر کرتے ہیں تو پاؤں سوج جاتے ہیں اور سفر کے بعد رفتہ، رفتہ وہ سوزش اتر جاتی ہے۔
بلاشبہ قرآن کریم کو رب العالمین نے شفا قرار دیا ہے جو روحانی اعتقادی، اور جسمانی امراض کے لیے باعث شفا ہے۔
جہاں تک بات ہے جسمانی امراض کے لیے باعث شفا ہونے کی تو یہ باری تعالی کی مشیت و حکم کے ساتھ ممکن ہے، باری تعالی چاہیں گے تو قرآن کریم کی کوئی سی آیت، اور سورت بیمار کے لیے باعث شفا بنے گی، باری تعالی نہیں چاہیں گے تو باعث شفا نہیں بنے گی اور اس کے ساتھ بندے کا ایمان، اطاعت، تقوی والا اور توکل و یقین کامل والا ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسی طرح نافرمان و فاسق ہونا بھی ایمان وتقوی والا توحید والا ہے اور کامل یقین کے ساتھ تلاوت کرتا ہے اور عامل قرآن بھی ہے تو باری تعالی شفاء ہی نہیں دیتے بلکہ امراض عجیبہ تک سے اور شیاطین آفات کے شر سے محفوظ رکھتے ہیں اس کی مثال خیر القرون کے بہترین لوگوں کو دیکھ لیں وہ خطرناک امراض اور جادو و جنات کے شر سے محفوظ رہے ان کے مبارک زمانہ میں یہ چیزیں آج کی طرح عام نہیں تھیں کیونکہ وہ قرآن کریم پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے باقی حقوق وفرائض بھی اسی طرح سے ادا کرتے تھے، آج اگر ایمان وتقوی نہیں ہو گا نافرمانیاں اور گناہ کثرت سے ہوں گے تو قرآن کریم کی تاثیر و تسکین سے محرومی رہے گی، سبب اس کے اپنے سیاہ اعمال اور برے کسب و کرتوت ہیں۔
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ بندہ ایمان و تقوی وعمل میں یکسو اور حتی الامکان پورا ہوتا ہے مگر قرآن کریم ادعیہ و اذکار اس کے لیے باعث شفا، باعث سکون ثابت نہیں ہوتے ہیں حتی کہ وہ اپنے مالک سے جا ملاقات کرتا ہے تو اس میں بھی بہت خیر موجود ہوتی ہے کہ اس کے ذمہ جب دنیا سے جاتا ہے تو کوئی گناہ نہیں ہوتا اور جنت میں اس کے لیے درجات کی بلندیاں کر دی جاتی ہیں کیونکہ حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مطابق مومن کا ہر معاملہ ہی خیر والا ہے مصیبت پر صابر اور نعمت خوشی کے ملنے پر شاکر بنتا ہے تو ہر دو صورت میں اجر سمیٹتا ہے ہر دو صورت خیر پاتا ہے [مفہوما حدیث مبارک دیکھیے صحیح مسلم: 2999]
اس کے علاوہ قرآن وحدیث میں انبیاء کرام علیھم السلام کے قصص جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد کا ملنا جب کہ دعائیں تو عالم شباب سے جاری تھیں، سیدنا ایوب علیہ السلام کی دعائیں و انابت الی الله لیکن شفا اور مال و اولاد کئ سالوں کے بعد ملتے ہیں اسی طرح دیگر قصص الانبیاء نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، احادیث نبویہ میں اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تصریحات موجود ہیں۔
المختصر دعا کی قبولیت اور شفاء کا ملنا یہ رب العالمین کے اختیار میں ہے رب العالمین کے بندے صرف یقین کامل کے ساتھ اپنے رب کریم کے حضور دعائیں التجائیں کرتے ہیں اور رحمت رب العالمین کے منتظر رہتے ہیں۔
جن خاص چیزوں کو باعث شفا کہا اور بتایا گیا ہے( جیسے قرآن کریم ،کلونجی، سنامکی، زم زم وغیرہ) وہ برحق ہے مگر یاد رکھیں یہ تب شفاء اور سکون کا ذریعہ بنتے ہیں، جب رب العالمین کا اذن و حکم ہو اور رب العالمین چاہیں ہمارا کام بس ایمان رکھتے ہوے ان خاص اسباب کو اختیار کرنا ہے اور نتیجہ معاملہ رب العالمین کے سپرد کرنا ہے اچھی امید اور حسن ظن کے ساتھ۔
البتہ قرآن کریم کے ساتھ ہر حال میں جڑے رہیں اس مبارک کتاب کو اپنی دینی، دنیاوی، اور اخروی کامیابی کےلیے رکھیں اور جیسے اس پر ایمان لانے اور اس کی روشن ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا حق ہے، ویسے وہ حق ادا کریں تا کہ رب العالمین کے ہاں ہم قدرداں بنیں اور ذلتوں سے محفوظ رہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ