سوال (2908)
ایک شخص مال و دولت والا ہے، وہ خود کہتا ہے کہ میرے اوپر حج فرض ہے، لیکن میرے کام بڑے زیادہ ہیں اور پھر صحت اجازت نہیں دیتی تو ایسی صورت میں وہ صرف عمرہ ادا کرنے چلا جائے تو کیا اس سے حج ساقط ہو جائے گا؟
جواب
“وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا” [سورة آل عمران : 97]
«اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے»
استطاعت کے بعد کوئی عذر نہیں اور دنیاوی کام کا تو بالکل نہیں، صحت صرف عمرہ کی اجازت کیسے دے رہی؟ حج کے دنوں میں عمرہ بھی ہو جائے گا، اس لیے حج کرے اس سے پہلے کہ صحت مزید گرے، موت کا ویسے پتہ نہیں ہے نیت تو صحیح کرے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
جو سوال سے واضح ہو رہا ہے، اس سے تو اس شخص پر حج واجب ہے اور قاعدہ “ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب” کے تحت اب اس پر اس فریضے کی ادائیگی کے لیے وقت نکالنا بھی واجب ہے، لہذا اس شخص کا یہ کہنا کہ “میرے کام بڑے زیادہ ہیں” مردود ہے۔ اگر وہ حج ادا نہیں کرتا تو گہنگار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا حج بارے یہ فرمان پیش نظر رکھنا چاہیے:
“وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ”
باقی رہا صحت والا معاملہ تو اس بارے عرض ہے کہ اس صورت میں “مبتلی بہ” کی اپنی ذاتی رائے کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ ہاں ایسے شخص کو ترغیب دلائی جائے اور حج کے فضائل والی احادیث سنائی جائیں تاکہ اس میں یہ فریضہ ادا کرنے کا شوق پیدا ہو۔
قال الله تعالى : وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ۔
تیسری بات کہ وہ صرف عمرہ ادا کرنے چلا جائے تو کیا اس سے حج ساقط ہو جائے گا؟ تو اس حوالے سے عرض ہے کہ عمرے سے حج کا فریضہ ساقط نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے ایک قاعدہ ذہن نشین کر لیں:
إن العمرة لا تقوم مقام الحج في الإجزاء، لا عن حج الفريضة ولا عن حج النافلة.
اور اس قاعدے پر اللہ کے فضل سے تمام علماء کا اتفاق ہے۔
لہذا اگر یہ شخص صرف عمرہ ادا کرتا ہے تو اس کو اس کا ثواب تو ملے گا لیکن اس سے حج ساقط نہیں ہو گا۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ