سوال (1894)
ایک آدمی اس کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ، دو بیٹیاں فوت ہوگئی ہیں ، باقی تین بیٹیاں اور تین بیٹے باقی ہیں ، اب وہ اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہے ، چھ کو دیتا ہے یعنی تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو اور جو دو فوت ہوگئی ہیں کہتا ہے کہ ان کا حصہ نہیں بنتا ہے حالانکہ ان کی اولاد موجود ہے ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب
پہلے یہ بتایا جائے کہ فوت ہونے والی بیٹیاں آدمی سے پہلے فوت ہوئی ہیں یا بعد میں ہوئی ہیں ؟
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل :
آدمی زندہ ہے بیٹیاں فوت ہوگئی ہیں ؟
جواب :
صاحب مال زندہ ہے تو وراثت کیسی ہے ؟ اگر تقسیم کرنا چاہتا ہے تو برابری پر کرے گا ، باقی جو ہیں وہ لیں گے ، جو گزر چکے وہ گزر چکے ہیں ۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل :
شیخ یہ بتائیں کہ جو فوت ہوگئی ہیں ، ان کی اولاد بھی نہیں لے سکتی ہے۔
جواب :
صاحب مال جس کو دینا چاہے دے سکتا ہے ،
البتہ وراثت میں اولاد کے ہوتے نواسے نواسیاں وارث نہیں ہوں گے ۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
جو وارث موروث کی زندگی میں فوت ہوجائیں ان کا حصہ نہیں ہوگا ، اور جو زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہے وہ وراثت نہیں ہوگی وہ عطیہ یا ہبہ کہلائے گا اور اس میں عدل کرنا ضروری ہے ، بیٹی کا ایک حصہ اور بیٹے کے دو حصے وراثت میں ہیں ہبہ میں نہیں ہیں ، اس لیے جو اولاد زندہ ہے ، جتنا مال تقسیم کرنا ہے ، ان میں برابر تقسیم کردے اور اگر اپنے نواسے نواسیوں کو دینا چاہے تو بھی وہ خود مختار ہے ، ان کو بھی دے سکتا ہے اور اپنی زوجہ محترمہ کے لیے اور اپنے لیے بھی کچھ رکھ لے سارا دے کر پھر خود ان کے رحم و کرم پہ یا مجبور زندگی نہ گزارے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ