سوال

میری کوئی اولاد نہیں ہے، میرے ورثاء میں میری ایک بیوی ہے، جبکہ میری دو سگی بہنیں ہیں اور چھ بھتیجے ہیں لیکن بہنیں اور بھتیجے بریلوی مشرک  ہیں، غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز کرتے ہیں، ماتمی جلوسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ میری پراپرٹی میں ایک گھر ہے، جس میں مَیں اور میری بیوی رہتے ہیں، اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نقد رقم ہے۔ میں اپنی پراپرٹی اپنے بعد کسی مدرسے یا مسجد کو دینا چاہتا ہوں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔                       سائل: غلام اللہ سومرو، شہدادپور، ضلع سانگھڑ ،سندھ

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس سوال سے متعلق  کچھ باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:

اول:  کلمہ گو مسلمان چاہے وہ شرک کا ارتکاب ہی کیوں نہ کررہا ہو، اسے مسلمانوں  میں ہی شمار کیا جائے گا۔ بریلوی فرقہ  سے منسلک لوگ اگرچہ شرکیہ افعال کے مرتکب ہیں، لیکن انہیں  دائرہ اسلام سے خارج کرنا درست نہیں،  ان کے لیے لین دین کے وہی احکام ہیں جو دیگر مسلمانوں کے آپس میں ہوتے ہیں۔ لہذا اگر آپ کے بعض رشتہ دار وں کے عقائد و اعمال  درست نہیں بھی ہیں، تو آپ انہیں  ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتے جو اسلام نے ان کے لیے طے کیا ہے۔

دوم:  آپ اپنی زندگی میں اللہ کے رستے میں خرچ کرنا چاہتے ہیں تو جو اللہ تعالی نے توفیق دی ہے، کریں، لیکن اگر  اپنے بعد اگر اپنا مال اور پراپرٹی اللہ کے رستے میں دینا چاہتے ہیں، تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ  سارا مال اللہ کے رستے میں دے کر ورثاء کو محروم نہیں کرسکتے، بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی وصیت کی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کی موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں، اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں بنتا، تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ جس پرآپ ﷺنے فرمایا : نہیں، میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اور مزید فرمایا:

« الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ». [ صحیح مسلم:1628]

’  البتہ ایک تہائی  صدقہ کر دو، اور ایک تہائی بہت ہے، بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ايك تہائی سے زیادہ مال وصیت یا ہبہ نہیں کرسکتا۔

سوم: وراثت زندگی میں تقسیم نہیں کی جاسکتی، زندگی میں شریعت کے مطابق وصیت کی جاسکتی ہے، مکمل وراثت کی تقسیم  انسان کے فوت ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے ، بعض لوگ اپنی زندگی میں ہی وراثت تقسیم کردیتے ہیں، جو کہ درست نہیں۔

مذکورہ سوال میں  اس شخص کی وفات کے بعد اس کے  مال سے تجہیز و تکفین پھر قرض  ہو تو اس کی ادائیگی اور پھر وصیت کا نفاذ اور پھر چوتھے مرحلے  میں باقی ماندہ مال ورثا میں تقسیم ہوگا۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ  بیوی کو چوتھا  حصہ اور بہنوں کو دو تہائی اور بھتیجے عصبہ بنیں گے۔  مال  کے کل 12 حصے بنیں گے، جس میں تین حصے بیوی کے، آٹھ حصے بہنوں کے اور ایک حصہ تمام بھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ