اہل علم اور ائمۂ مساجد کی معاشی کفالت
(جمع و ترتیب: عبدالحلیم محمد بلال)
{تفہیم و ترجمانی: طاہر اسلام عسکری}

علماے کرام اور مساجد کے ائمۂ عظام کا اعزاز و اکرام کیجیے اور ان کی معاشی کفالت کا اہتمام کیجیے؛ کیا عجب کہ ان میں سے کسی کی دعا ہی آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے!

امام طبرانی، بیہقی اور ابو نعیم رحمہم اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“بے شک اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اپنی نعمتوں کے لیے خاص کرتا ہے تاکہ وہ بندوں کو فائدہ پہنچائیں، اور جب تک وہ یہ نعمتیں بانٹتے رہتے ہیں، اللہ انہیں برقرار رکھتا ہے۔ لیکن جب وہ انہیں روک لیتے ہیں، تو اللہ ان سے چھین کر دوسروں کو دے دیتا ہے۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی: 13925، حلیة الأولیاء لأبي نعيم: 10/215، شعب الإيمان للبيهقي: 7662) امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو “حسن” قرار دیا ہے (صحیح الجامع: 2164، السلسلة الصحيحة: 1692)

یحیٰ بن خالد البرمکی، ہارون الرشید کا وزیر تھا اور محدث امام سفیان ثوریؒ ( بعض روایات کی رُو سے امام سفیان بن عیینہؒ) کو ماہانہ ایک ہزار درہم دیا کرتا تھا تاکہ ان کا فقر و افلاس انھیں لوگوں تک سنت و فقہ پہنچانے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
سفیان رحمہ اللّٰہ اس کے لیے سجدے میں یہ دعا کیا کرتے تھے:

( اللهم إنَّ يحيى كفاني أَمرَ دُنياي، فاكفِهِ أمر آخِرتِهِ)

اے اللّٰہ! یحیٰ نے مجھے میرے دنیوی معاملات سے بے نیاز کر دیا ہے؛ تُو اس کے اخروی امور میں اس کے لیے کافی ہو جا!
جب یحیٰ کا انتقال ہوا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھ اور پوچھا: خدا نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟
کہنے لگا: پروردگار نے مجھے سفیانؒ کی دعا کی برکت سے بخش دیا۔
(البداية والنهاية 679/13؛ووَفياتُ الأعيان 228/6)

امام بیہقی رحمہ اللہ نے حباب بن موسیٰ سے روایت کیا ہے کہ کسی نے عبداللہ بن مبارک سے کہا:
“اے ابو عبدالرحمن! آپ مختلف شہروں میں اپنا مال تقسیم کرتے ہیں، لیکن خراسان میں کسی کو نہیں دیتے؟”
انہوں نے جواب دیا:
“میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو دیانت دار اور نیک ہیں، انہوں نے حدیث کا علم حاصل کیا اور وہ ضرورت مند ہیں۔ اگر ہم نے ان کی مدد نہ کی تو ان کا علم ضائع ہو جائے گا، اور اگر ہم نے ان کی مدد کی تو وہ امتِ محمدیہ ﷺ میں علم پھیلائیں گے۔ اور میں نبوت کے بعد سب سے بڑی فضیلت علم کے پھیلانے کو سمجھتا ہوں۔”
(شعب الإيمان للبيهقي: 3/263)

علامہ ابن الجوزیؒ لکھتے ہیں کہ امیر احمد بن طولون (م270ھ؛ مصر و شام اور سرحدی علاقوں کا والی) صبح سویرے گشت پہ نکلتا اور محرابوں میں قراَت کرتے ائمہ مساجد کی قراَت سنا کرتا۔ ایک دن اپنے ایک ملازم کو بلایا اور کہا: فلاں مسجد میں جاؤ اور اس کے امام کو یہ دینار دے آؤ۔
اُس مصاحب کا بیان ہے کہ میں وہاں گیا اور کچھ دیر امام مسجد کے پاس بیٹھ کر بے تکلفی سے بات چیت کی تو اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کو آنت کی بیماری ہے مگر اس کے پاس اس کے علاج کے لیے روپیا نہیں۔ پھر اس نے نماز پڑھائی تو اس میں قراَت کی کئی غلطیاں کیں۔ میں واپس امیر ابن طولون کے پاس آیا اور اسے تمام قصہ سنایا تو وہ کہنے لگا: امام مسجد سچا ہے؛ میں نے کل اس کی قراَت سنی تو اس میں بہت غلطیاں کر رہا تھا؛ اس سے مجھے پتا چل گیا کہ اس کا دل پریشان ہے! (الأذكياء لابن الجوزي، ص: 57، والطرق الحكمية في السياسة الشرعية لابن القيم،ص: 42)

بسا اوقات آپ کسی ایسے شخص کی دعا پہ بھی مغفرت کے مستحق ہو سکتے ہیں جو شکستہ دل تھا اور آپ نے اس کی تسکین قلب کا سامان کر دیا؛ وہ مشکل میں تھا اور آپ نے اس کی مشکل دُور کر دی؛ وہ کسی غم اور پریشانی میں مبتلا تھا اور آپ نے اُس پریشانی کو زائل کر دیا۔ کبھی ایک مریض کے لیے خریدی گئی دوا کی شیشی بھی آپ کی مغفرت کا سبب بن سکتی ہے۔

کئی مرتبہ انسان کو ان محتاجوں اور مسکینوں کی دعا کی بہ دولت بھی خدا کی طرف سے رزق اور نصرت عطا ہوتی ہے جن کی اس نے نصرت و اعانت کی ہوتی ہے۔ امام بخاریؒ نے مصعب بن سعدؒ سے نقل کیا ہے کہ ان کے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کا خیال تھا کہ انھیں اپنے سے کم تر کئی لوگوں پہ فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تُمھیں مدد اور رزق تو تمھارے کم زور لوگوں کی بنا پہ عطا کیا جاتا ہے! (بخاری: 2896)

رب کریم ہمیں مسلمانوں کی بہتری اور نفع مندی کا سبب بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔