تلفظ کا مسئلہ صرف عربی زبان کا ہی نہیں، ہر زبان کا ایک معیاری تلفظ ہے، جو اس زبان کے ماہرین کے ہاں رائج ہوتا ہے۔ اردو زبان کے تلفظ کی لذت و چاشنی کو محسوس کرنا ہو تو ضیاء محیی الدین وغیرہ کو سن کر کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو اردو کے ساتھ عجیب کھلواڑ کرتے ہیں..!! ٹی وی پروگرامز میں اردو خبریں پڑھنے والے، اسی طرح اساتذہ سے سننے کی بجائے صرف کتابیں پڑھ کر علم حاصل کرنے والے اسکالرز کی ہر گفتگو میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح زبر، زیر، پیش کے ساتھ من مانی کرتے ہوئے ایک نئی اردو متعارف کروا رہے ہوتے ہیں..!!
لیکن تلفظ کے باب میں بعض اہل علم حد سے زیادہ حساسیت کا شکار ہیں، لہذا ان کا مطالبہ یہ ہے کہ اردو کا تلفظ بھی ویسے ہی ہونا چاہیے، جیسا کہ کسی عربی دان کا ہوتا ہے۔
انڈیا کے ایک صاحب علم آج کل اردو کے حوالے سے مختلف تحاریر لکھ رہے ہیں، جن کا لب لباب یہ ہے کہ اردو والوں کو اردو بھی بولنی نہیں آتی۔ لکھتے کچھ ہیں بولتے کچھ ہیں۔
مثلا انہیں یہ گلہ ہے کہ اردو میں لکھا’ضمانت، تلفظ، طاہر’ جاتا ہے، جبکہ پڑھا’زمانت، تلفز، تاہر’ جاتا ہے۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ دنیا میں اردو واحد زبان ہے، جس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔
حالانکہ ڈاکٹر صاحب عالم عرب میں رہتے ہیں، وہاں مختلف علاقوں کے عرب لوگ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ مثلا بہت سارے ’گال’ اور ’آل’ بولتے ہیں، لیکن اسی لفظ کو جب لکھتے ہیں تو ’قال’ لکھتے ہیں۔ یعنی ’ق’ کی جگہ پر کچھ لوگ گ اور کچھ أ بولتے ہیں۔
بعض عرب لوگوں سے آپ دوران خرید و فروخت یہ لفظ سنیں گے’چم ہذا؟’ اور حیران ہوں گے کہ عربی میں بھی چ ہوتی ہے؟ لیکن جب وہ اس لفظ کو لکھیں گے تو آپ کی حیرت جاتی رہے گی کہ وہ ’کم’ کی ک کو چ سے بدل رہے ہیں…!!
اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں، جن میں مختلف لہجات کے لوگ الفاظ میں تبدیلی کردیتے ہیں۔
عربی میں ملتی جلتی آوازوں والے حروف میں ’ذ، ز، ظ، ض’ ہے، تجوید پڑھنے والے بچوں کو اس پر بہت سرکھپائی کرنا پڑتی ہے.. مصری قرائے کرام جو قراءت قرآن میں سب سے ماہر ترین سمجھتے جاتے ہیں، وہی لوگ جب عام عربی زبان بولنے میں آتے ہیں، تو ان تینوں چاروں کی جگہ صرف ایک لفظ’ ز’ بولتے ہیں..!! یعنی ’بالضبط’ کو وہ ’بالزبط’ کہیں گے، وعلے ہذا القیاس..!!
لہذا یہ الزام صرف اہل اردو کو دینا مناسب نہیں ہے۔

خلیجی ممالک میں برصغیر کے لوگوں کے اقامہ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ دستاویزات (ڈاکومنٹس) پر عموما نام غلط لکھے ہوتے ہیں، ہمارے محترم موصوف صاحب کا خیال ہے کہ یہ بھی ہمارے لوگوں کی غلطی ہے کہ انہیں لفظ صحیح بولنے نہیں آتے.. لہذا ظاہر ہے جب وہ ’طاہر’ کو ’تاہر’ بولیں گے، تو سننے والے نے ’تاہر’ ہی لکھ دینا ہے۔ میرے خیال میں اس میں بھي اہل اردو کے تلفظ کی بجائے زیادہ قصور عربوں کی لاپرواہی اور تن آسانی اور لا ابالی پن کا ہے۔ ورنہ کسی بھی علاقے کے لوگوں کے لب ولہجے پر ذرا غور وفکر کرکے اس قسم کی غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ جب ہم اہل اردو عربوں کے مختلف لہجوں کو سمجھتے اور اس کا فرق کرتے ہیں، تو وہ ہمارے مسائل کو کیوں نہیں سمجھتے؟

میں تو ایسے عربوں کو بھی جانتا ہوں، جنہیں کوئی نام بتایا جائے، اور انہیں سمجھ نہ آئے، تو وہ اپنی طرف سے کوئی بھی نام لکھ دیتے ہیں، ہمارے ایک کویتی دوست نے بتایا کہ ایک خاتون کا کسی جگہ نام لکھوایا جارہا تھا، وہ لکھنے والے کو سمجھ نہیں آیا، کہتا: خل ول سجل فاطمۃ… یعنی اس نام کو دفعہ کرو،  سیدھا ’فاطمہ’ ہی لکھ دو…!!
بہرصورت ہمیں اس حقیقت کو ماننا چاہیے کہ لب و لہجے کا فرق پڑ جاتا ہے، اور ہر زبان میں ایسے الفاظ ہوتے ہیں کہ ان میں بولتے وقت فرق نمایاں کرنا مشکل ہوتا ہے۔
بلکہ بعض دفعہ اگر آپ کسی ایک زبان کو بولتے وقت کسی دوسری زبان کے لب و لہجے کو اختیار کریں، تو وہ تکلف و تصنع سے بھی آگے بڑھ کر ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔
آپ ذرا تصور کریں کہ محمد بن سلمان یا جوبائیڈن اردو بول رہا ہو؟ کیسا لگے گا؟ مودی نے محمد بن سلمان کو خوش آمدید کہتے ہوئے جو عربی بولی تھی، اسی طرح کا کوئی نمونہ ہی پیدا ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر زبان کو بولنے کا مناسب اور درست اسلوب وہی ہوتا ہے، جو اہل زبان کے ہاں رائج ہوتا ہے، اور اگر اس میں کہیں کمی بیشی اور بہتری بھی کی جائے گی تو اہل زبان کے مطابق ہی کی جائے گی، کسی اور زبان اور لب ولہجے کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، بھلا دونوں زبانوں میں لفظی اشتراک کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو!!

#خیال_خاطر