سوال (2371)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اس نے روزہ بھی رکھا ہوا ہو اور اس حالت میں مر گیا کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتا تھا جہنم میں ہی جائے گا۔
[مستدرک حاکم: حدیث نمبر 4712]

جواب

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَافِظُ الْأَسَدِيُّ، بِهَمْدَانَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ دِيزِيلَ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ثنا أَبِي، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “” يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: أَنْ يُثَبِّتُ قَائِمَكُمْ، وَأَنْ يَهْدِيَ ضَالَّكُمْ، وَأَنْ يُعَلِّمَ جَاهِلَكُمْ، وَسَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَكُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ فَصَلَّى، وَصَامَ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ دَخَلَ النَّارَ «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق من تلخيص الذهبي: 4712 على شرط مسلم]

تخریج:
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتابوں میں ذکر کی گئی ہے۔
1 : أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی (حدیث نمبر:۱۰۳۸،ج:۱،ص:۴۷۰،ط:دارخضر)
2 : السنۃ لأبن أبی عاصم:حدیث نمبر:۱۵۴۶،ج:۲،ص:۶۴۲،ط: المکتب الاسلامی)
3 : جزء أبي عروبة الحراني برواية أبي أحمد الحاكم:حدیث نمبر:۴۱،ص:۵۱،ط: شرکۃ الریاض)
4 : المستدرك على الصحيحين للحاكم: (حدیث نمبر:۴۷۷۵، ج:۳،ص:۱۷۳،ط: دارالحرمین)
5 : أمالی ابن بشران:( حدیث نمبر:۴۶۵،ص:۲۰۲،ط: دارالوطن)

حدیث کا حکم:
مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں امام حاکم نے فرمایا:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق ہے، لیکن امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں اس روایت کو ذکر نہیں کیا، علامہ ذہبیؒ نے امام حاکم کی تائید فرمائی ہے۔
امام ابو حاتم نے اس حدیث کو منکر حدیث قرار دیا ہے اور علامہ ہیثمی نے فرمایا کہ طبرانی نے اس روایت کو اپنے شیخ محمد بن زکریا الغلابی سے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے اور علامہ ابن حبان نے انھیں ثقات میں ذکر کیا اور فرمایا کہ ان(محمد بن زکریا الغلابی) کی روایت جب ثقات سے ہو تو قبول کی جائے گی کیونکہ مجاہیل (مجہول رواۃ) سے ان کی روایت میں بعض منکر باتیں ہیں۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:
انہوں نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے اور اس کے باقی رجال (راوی) صحیح راوی ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کی سند پر اگرچہ بعض محدثین نے کلام کیا ہے، البتہ امام حاکم اور علامہ ذہبی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم
اس بارے میں ایک حسن درجہ کی روایت ملاحظہ فرمائیں!

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: و الذي نفسي بيده ، لا يُبغِضُنا أهلَ البيتِ أحدٌ إلا أدخلَه اللهُ النارَ

سیدنا ابو سعید خدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے ہم اہل بیت سے جو کوئی بھی بغض رکھے گا الله تعالی اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
[صحیح ابن حبان: (6978) سنده حسن لذاته]
اہل بیت کی شان وعظمت کے گواہ و ترجمان صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم تھے، اس لیے ان سے زیادہ سچا محب اہل بیت کوئی نہیں ہو سکتا ہے، اور بغض اہل بیت ان کے حصہ میں آیا ہے، جو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بارے دلوں میں بغض پالتے ہیں تو اہل بیت کی شان و عظمت کے گواہ و ترجمان صحابہ سے بغض درحقیقت اہل بیت سے بغض ہے کہ ان کی معرفت وپہچان و عظمت انہی صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ہی تو ممکن ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اہل بیت سے بغض میں ایک بہت اہم بات لازمی سمجھنی چاہیے کہ یہ بغض والی بات کون کر رہا ہے، اگر تو یہ کوئی رافضی یا رافضی نما (مرزا) کر رہا ہے تو اس کو کچھ اور جواب دیا جائے گا اور اگر کوئی صحیح العقیدہ کر رہا ہے تو کچھ اور جواب دیا جائے گا، اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے کوئی صحیح العقیدہ کہتا ہے، کہ فداک ابی و امی یا رسول اللہ تو ہم اس پہ طعن نہیں کریں گے، البتہ ایک معلوم مشرک جب یا رسول اللہ کہتا ہے تو وہاں ہم اس پہ اعتراض کرتے ہیں، کیونکہ دونوں کی نیت میں فرق ہے اسی طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو امام کہنے کے پیچھے بھی معصومیت کا ایک عقیدہ ہوتا ہے۔
بالکل اسی طرح آپ اہل بیت سے بغض والے کے جہنمی ہونے کی جتنی صحیح احادیث نکال لیں، ان میں کوئی مطلق نہیں ہوگی، بلکہ ہمیشہ کچھ قیود لازمی ہوں گی، ان میں بغض کی وجہ کا دیکھنا اہم قید ہے، ورنہ کچھ رافضی یہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی و حسن و ؑحسین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کسی بھی صحابی نے لڑائی کی تو اس میں بغض تو ہوگا تو وہ پھر جہنمی ہوگیا، کیونکہ کوئی بھی اللہ کی مرضی کے خلاف کام کر رہا ہے تو اس سے بغض رکھنا تو متفق حدیث ہے کہ من احب للہ و ابغض للہ ۔۔۔ پس اگر کسی اہل بیت سے کوئی اللہ کی نافرمانی ہو جاتی ہے تو اس عمل کی وجہ سے اس سے بغض رکھنا تو ایمان ہوگا۔
پس میرے نزدیک یہ اوپر بغض والی احادیث اس بغض پہ ہیں جو انکے اہل بیت ہونے کی وجہ سے بغض ہے کیونکہ یہ بغض دراصل رسول اللہ ﷺ سے بغض ہو گا اور اسکا مرتکب تو واقعی جہنمی ہے پس اصل بغض جس پہ کوئی جہنمی ہوتا ہے وہ کسی کے اہل بیت ہونے پہ بغض ہے اسکے عمل کی وجہ سے بغض سے کوئی جہنمی نہیں ہوتا اس طرح کہنے سے ہم رافضیوں کے بچھائے جال سے بھی بچ سکتے ہیں اور حدیث پہ بھی عمل ہو جائے گا واللہ اعلم
اگر کہیں غلطی ہو تو شیوخ اصلاح کر دیں.
یعنی جو رافضی اس بغض والی حدیث کو صحابہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس کے لئے اسکی وضاحت کرنی چاہئے کہ اس بغض سے مراد کسی کے اہل بیت ہونے کا بغض نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ