’’اہلِ بدعت کے بارے میں امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (١٨٧هـ) کے چند اقوال‘‘

 

✿«مَنْ أَحَبَّ صَاحِبَ بِدْعَةٍ أَحْبَطَ اللهُ عَمَلُهُ، وَأَخْرَجَ نُورَ الْإِسْلَامِ مِنْ قَلْبِهِ».

’’جو کسی بدعتی سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عمل کو ضائع کر دیتے ہیں اور دینِ اسلام کے نور کو اس کے دل سے نکال دیتے ہیں۔‘‘

⇚تعليق : بدعتی ہونے کے باوجود کسی سے محبت دو ہی صورتوں میں ہوسکتی ہے : اولا : بندہ اس کی بدعت کو بدعت نہیں سمجھتا یہ نہایت سنگین معاملہ ہے۔ ثانیاً : اس کی بدعت کو بدعت تو سمجھتا ہے لیکن اس کے نزدیک اللہ کے دین میں تحریف اور اضافہ کر دینا معمولی چیزوں میں سے ہے کہ جس کا فاعل کسی قسم کے بغض یا دوری کا مستحق نہیں۔

یہاں مراد بلکہ اہلِ بدعت کے سربراہ، علماء اور اپنی بدعات کی ترویج میں سرگرم ہٹ دھر لوگ مراد ہیں۔ عام جاہل عوام یا نصیحت پسند راست باز لوگ کہ جو سنت کا علم ہوجائے پر بدعت چھوڑ دیتے ہیں اور نصیحتِ حق کو قبول کرتے ہیں ان سے تعلقات مصالح ومفاسد کی بنیاد پر قائم ہیں۔

✿⇚«إِذَا رَأَيْتَ مُبْتَدِعًا فِي طَرِيقٍ فَخُذْ فِي طَرِيقٍ آخَرَ».

’’جب آپ کسی راستے میں بدعتی کو دیکھیں تو راستہ تبدیل کر لیں۔‘‘

⇚تعلیق : یہ اہلِ بدعت سے دوری پر مبالغہ ہے کہ آپ اُن کے قریب بھی نہ جائیں۔ جیسے عام کلام میں شدتِ امتناع کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں راستے میں ملے تو راستہ تبدیل کر لو۔ کچھ کج فہم استہزاءً یہ بات نکالیں گے کہ ہمارے ملک کی تو کوئی گلی اہلِ بدعت سے خالی نہیں لہذا گھروں میں رہا کرو۔ طلبۃُ العلم کے لیے یہ کج فہمی وبدمزاجی بالکل واضح ہوتی ہے۔

✿⇚«لَا يَرْتَفِعُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ إِلَى اللهِ عز وجل عَمَلٌ».

’’بدعتی کا کوئی عمل بھی اللہ تعالی کی طرف بلند نہیں ہوتا۔‘‘

⇚تعليق : جو اللہ کے دین کو مکمل نہیں سمجھتا اور اسے اسلافِ امت کا دین کافی نہیں لگتا تو وہ اَصلِ اسلام میں طعن زنی کرتا ہے جو دیگر تمام اعمال کے اکارت ہونے کا موجب ہے۔

✿⇚«مَنْ أَعَانَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ».

’’جس نے کسی بدعتی کی معاونت کی تو گویا اس نے اسلام کو گرانے پر تعاون کیا۔‘‘

⇚تعليق : اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو لوگ اہلِ بدعت کی دعوت وتبلیغ میں انہیں پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں کہ آپ کے لیے اپنی بدعات کی ترویج واشاعت کے لیے ہمارے اسٹیج، اسٹوڈیو اور چینلز کھلے ہیں۔ یہ لوگ دراصل خالص اسلام اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کو گرانے میں معاونت کرتے ہیں۔
رہا دنیاوی معاملات میں لین دین اور معاشرتی مسائل میں باہم تعاون تو یہ مصلحت ومفسدت کی مرعات کے ساتھ غیر مسلموں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

✿⇚«نَظَرَ الْمُؤْمِنُ إِلَى الْمُؤْمِنِ جَلَاءُ الْقَلْبِ، وَنَظَرُ الرَّجُلِ إِلَى صَاحِبِ الْبِدْعَةِ يُورِثُ الْعَمَى».

’’مومن کو دیکھ لینا دل کے لیے باعثِ نور ہے جبکہ بدعتی کو دیکھنے سے بندے کی بینائی چھن جاتی ہے۔‘‘

✿⇚«مَنْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَاوَرَهُ فَقَصَرَ عَمَلُهُ فَدَلَّهُ عَلَى مُبْتَدَعٍ فَقَدْ غَشَّ الْإِسْلَامَ».

’’جس کے پاس کوئی مشورہ لینے آیا، وہ کچھ نہ کر سکا اور اسے کسی بدعتی کی طرف بھیج دیا تو اس نے اسلام سے غداری و دھوکہ کیا۔‘‘

⇚تعليق : اس میں اُن کا رد ہے جو عام لوگوں اور طلباء کو بدعتی وغلط لوگوں کی کتب، درس وتدریس اور پروگرامز دیکھنے کے مشورے دیتے ہیں، یہ لوگ دین اسلام کے خالص چشمے میں بدعات کی ملاوٹ کرنا چاہتے ہیں۔

✿⇚«إِنِّي أُحِبُ مَنْ أُحَبَّهُمُ اللهُ وَهُمُ الَّذِينَ يُسَلِّمُ مِنْهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ وَأُبْغِضُ مَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ وَهُمْ أَصْحَابُ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ».

’’میں اُن لوگوں سے محبت کرتا ہوں جن سے اللہ تعالی محبت کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے محمد کریم ﷺ کے صحابہ محفوظ رہتے ہیں ۔ اور میں اُن لوگوں سے نفرت کرتا ہوں جن سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتے ہیں۔ یہ بدعتی اور خواہش پرست لوگ ہیں۔‘‘

⇚تعليق : یعنی اہلِ بدعت، اللہ تعالی کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔

✿⇚«لَأَنْ آكُلَ عِنْدَ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ آكُلُ عِنْدَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ فَإِنِّي إِذَا أَكَلْتُ عِنْدَهُمَا لَا يُقْتَدَى بِي وَإِذَا أَكَلْتُ عِنْدَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ اقْتَدَى بِي النَّاسُ، أُحِبُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حِصْنٌ مِنْ حَدِيدٍ، وَعَمَلٌ قَلِيلٌ فِي سُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ عَمِلِ صَاحِبِ بِدْعَةٍ وَمَنْ جَلَسَ مَعَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ لَمْ يُعْطَ الْحِكْمَةَ وَمَنْ جَلَسَ إِلَى صَاحِبِ بِدْعَةٍ فَاحْذَرْهُ، وَصَاحِبُ بِدْعَةٍ لَا تَأْمَنُهُ عَلَى دِينِكَ وَلَا تُشَاوَرْهُ فِي أَمْرِكَ وَلَا تَجْلِسْ إِلَيْهِ، فَمَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ وَرَّثَهُ اللهُ عز وجل الْعَمَى وَإِذَا عَلِمَ اللهُ مِنْ رَجُلٍ أَنَّهُ مُبْغِضٌ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ رَجَوْتُ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُ، وَإِنْ قَلَّ عَمَلُهُ فَإِنِّي أَرْجُو لَهُ، لِأَنَّ صَاحِبَ السُّنَّةِ يَعْرِضُ كُلَّ خَيْرٍ وَصَاحِبُ الْبِدْعَةِ لَا يَرْتَفِعُ لَهُ إِلَى اللهِ عَمَلٍ، وَإِنْ كَثُرَ عَمَلُهُ».

’’کسی بدعتی کے ہاں کھانے سے بہتر ہے کہ میں یہودی وعیسائی کے ہاں کھا لوں، کیوں کہ اگر میں یہودی وعیسائی کے پاس کھاؤں گا تو لوگ میری پیروی نہیں کریں گے لیکن اگر ب بدعتی کے ہاں جاؤں گا تو لوگ میری اقتداء کریں گے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا قلعہ ہو۔ سنت پر تھوڑا عمل بدعتی کے عمل سے بہتر ہے۔ جو بدعتی کے پاس بیٹھ جاتا ہے حکمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جو بدعتی کے پاس بیٹھتا ہو اس سے بچ کر رہیں۔ اپنے دین کے معاملے میں بدعتی پر بھروسہ نہ کریں، اپنے معاملات میں اس سے مشاورت نہ کریں، اس کے پاس نہ بیٹھیں، جو اس کے پاس بیٹھے گا اندھا ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالی کسی بندے سے دیکھیں گے کہ وہ بدعتی سے نفرت کرتا ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی اسے معاف کر دیں گے، چاہے اس کے عمل تھوڑے ہی ہوں میں پھر بھی اس کے متعلق پُر امید ہوں۔ کیوں کہ عاملِ سنت بھلائی پر ہوتا ہے اور بدعتی کا کوئی عمل اللہ تعالی کی طرف نہیں جاتا، چاہے اس کے اعمال زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

⇚تعليق : یہ بات بالکل واضح ہے کہ عامی اگر کسی معتبر شخصیت کو یہودیوں یا عیسائیوں کے پاس دیکھے گا تو اس سے اُس کے اسلام چھوڑ جانے کا خدشہ بہت کم ہے لیکن اگر وہ کسی عالم دین کو اہل بدعت کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا دیکھے گا تو سمجھے گا کہ شاید ہمارا اُن سے کوئی اختلاف نہیں یا لفظی اختلاف ہے اس سے وہ اہل بدعت کے قریب ہونا شروع ہو جائے گا اور بالآخر ان سے جا ملے گا سمجھدار کے لیے یہ بات بالکل عیاں ہے۔ اہلِ بدعت کے میل جول سے بندے کی بصیرت چھن جاتی ہے اور وہ حق کو درست نظر سے دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔

✿⇚«إِنَّ اللهَ عزوجل وَمَلَائِكَتَهُ يَطْلُبُونَ حِلَقَ الذِّكْرِ فَانْظُرُ مَعَ مَنْ يَكُونُ مَجْلِسُكَ لَا يَكُونُ مَعَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَعَلَامَةُ النِّفَاقِ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ وَيَقْعُدَ مَعَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ. وَأَدْرَكْتُ خِيَارَ النَّاسِ كُلُّهُمْ أَصْحَابُ سُنَّةٍ وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْ أَصْحَابِ الْبِدْعَةِ».

’’اللہ تعالی اور فرشتے ذکر کے حلقات دیکھتے رہتے ہیں، آپ دیکھیں کہ آپ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، بدعتی کے ساتھ آپ کی بیٹھک نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھتے۔ بندے کا بدعتی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا منافقت کی نشانی ہے۔ میں نے بہترین لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سب سنت پر عمل کرنے والے تھے اور اہلِ بدعت سے منع کرنے والے تھے۔‘‘

⇚تعلیق : فرشتوں کا حلقات ذکر کی تلاش میں رہنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اللہ تعالی کے برے لوگوں کی طرف التفات نہ کرنے پر بے شمار دلائل ہیں۔ بھلا بدعتی سے بڑا ظالم اور بدعمل کون ہوگا؟ بدعتیوں سے بیٹھک منافقت کی علامت اس طرح ہے کہ منافقین ہمیشہ حق وباطل کو گڈمڈ اور خلط ملط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ سنت اور بدعت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، سب ہی ٹھیک ہیں اور سب ہی اچھے ہیں۔

[یہ تمام أقوال امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے حلية الأولياء (٨/ ١٠٣) میں صحیح اسانید کے ساتھ ذکر کیے ہیں۔]

… ترجمہ وتعلیق : حافظ محمد طاھر

 

یہ بھی پڑھیں: ’’زہد وآداب کے باب میں امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (١٨٧هـ) کے اقوال‘‘