اہل بدعت کے رد کے حوالے سے دو اہم اصول

جس طرح بدعت کا رد کرنا ایک بہت ضروری ہے ویسے ہی بدعات کے رد میں درست منہج اپنانا بھی بہت ضروری ہے وگرنہ بعض اوقات بدعت کے رد کرنے میں غلط انداز اپنانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اس رد کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ بدعت میں واقع لوگ قطعا ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض بدعتی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کا رد بڑی شدت سے کیا جاے اور اس کی وجہ بعض اوقات ان کی بدعت کی سنگینی اور بعض اوقات اس بدعتی انسان کا پھیلایا ہوا فساد ہوتا ہے لہذا ضروری ہوتا ہے کہ اس بدعت اور اس کے داعی بدعتی کا سختی سے رد کیا جاے

جیسے بہت سارے بدعتیوں کے ساتھ سختی برتی جا سکتی ویسے ہی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بعض اوقات بدعت میں واقع ہونے کے باوجود بھی انسان اس بات کا حقدار ہوتا ہے کہ اس کے رد میں نرم انداز اپنایا جاے کیونکہ اس کے بدعت میں واقع ہونے کا سبب اس کی بدنیتی یا تلاش حق میں کوتاہی نہیں بلکہ جہالت یا کم علمی یا غلط فہمی ہوتی ہے اور مزید اس کے علاؤہ یہ بھی کہ اس کی زندگی اور اس کی ذات پہ خیر کا غلبہ ہوتا ہے اور اس خیر کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔مثلا

1: اس بدعت کے علاؤہ اس انسان کے باقی عقائد واعمال اہلسنت کے اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں۔

2: اس کا عمومی مزاج حق کو قبول کرنے والا ہوتا ہے

3: اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں اس کی قابل قدر خدمات ہوتی ہیں۔

اس لیے کسی بھی شخصیت کے بارے میں سخت رویہ اپنانے سے پہلے ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے وگرنہ محض چند دروس سن کر یا چند کتب پڑھ کر یا چند مشائخ کی آراء کو لے کر لوگوں کو منہج سے اندر باہر کرنے کا جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ ہمارے سامنے ہی ہے

اہل بدعت کے رد میں درست منہج کو اپنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دو اصولوں کا لازما خیال رکھے۔

1: علم وفہم

بدعتیوں کا رد کرنے والے کے پاس ائمہ اہل سنت کے اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے اصولوں کا گہرا علم وفہم ہونا ضروری ہے۔ ائمہ اہل سنت کے منہج تعامل کے اصول جہاں بڑے واضح٬ سادہ اور دو ٹوک ہیں وہیں ان اصولوں کی درست تطبیق کے لیے گہرے علم وفہم کی بھی ضرورت ہے تاکہ جب کسی شخص کو اس کی بدعت کی وجہ سے اہل سنت سے خارج کیا جاے تو انہی اصولوں کی روشنی میں کیا جاے اور اگر کسی کو عذر دیا جاے تو انہی اصولوں کی وجہ سے دیا جاے اور ان اصولوں کا علم و فہم محض چند دروس سن لینے یا ایک آدھا دورہ کر لینے سے یاایک آدھ کتاب پڑھ لینے سے حاصل نہیں ہوتا ۔اس علم وفہم کی عملی مثال دیکھنی ہو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب دیکھ لیں۔ علم وفراست اپنے پورے عروج پہ نظر آے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور سعودی عالم شیخ صالح بن عبد العزیز آل شیخ نے کہا تھا کہ ائمہ سلف کی کتب میں بدعتیوں سے تعامل کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی درست تطبیق کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

2: دل کی اصلاح

گہرے علم وفہم کے حصول کے ساتھ ساتھ جب تک بدعات کا رد کرنے والا اپنے دل کی اصلاح نہیں کرتا اس کی دعوت زیادہ فایدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ اس بات پہ بہت زور دیتے ہیں کہ بدعات اور بدعت میں واقع لوگوں کا رد کرنے والوں کو اپنے دل کی اصلاح کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے اور دل کی بیماریوں جیسے حسد بغض تکبر اور کینہ وغیرہ سے اپنے آپ کو پاک کرنا چاہیے اور اس دل میں اہل ایمان کے لیے ترحم٬ نرمی اور خیرخواہی کو جگہ دینی چاہیے ۔اگر دل کی اصلاح کے بغیر انسان بدعت یا دیگر منکرات کا رد شروع کردے تو بعض اوقات فائدے سے زیادہ نقصان کر دیتا اور اس رد میں احقاق حق اور ابطال باطل سے زیادہ اپنے نفس کی تسکین کا پہلو نمایاں ہوتا ہے جس کا عملی مشاہدہ بھی آج کل خوب ہو رہا ہے کہ اپنی من پسند شخصیات کی واضح گمراہیوں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا اور اپنے مخالفین کی منہجی غلطیوں پہ بغیر کسی توقف کے انہیں منہج سے نکالا جا رہا ۔یہ دراصل دل کی اصلاح نا ہونے کا نتیجہ ہے۔

اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کی صراط مستقیم کی طرف رہنمای کرے آمین یارب العالمین

حنین قدوسی

یہ بھی پڑھیں: اختلاف میں احتیاط