وہ تو شکر کریں اہل غزہ کا کہ ان کے ساتھ یکجہتی کرنے کھڑے ہوئے تو ہمیں علم ہوا ہم تو چیزوں کے غلام ہیں۔ بائیکاٹ کے بعد پتہ چلا ہم تو اس سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں۔ پرچون کی دکان سے آتا ہوا سودا سلف کب سپر اسٹور کی بڑی بڑی ٹرالیوں میں تبدیل ہوا پتہ ہی نہیں لگا۔ ضروری اشیاء کی فہرست میں کب غیر ضروری سامان کا اضافہ ہوا ہمیں معلوم نہ ہوسکا۔

کب ہماری الماریاں،ہمارے فریج گروسری کے نام پہ بیماریوں سے بھرے سامان سے بھرتے چلے گئے کب ہم اسٹیٹس کے نام پہ،بچوں کی خواہشات کے آگے ان کے لنچ بکس کی فرمائشوں کے آگے دھڑا دھڑ بھرتے چلے گئے۔ کب ہم instant food ،فروزن فوڈ کے نام پہ مہینے کے سامان کی فہرست طویل کرتے چلے گئے ہمیں واقعی میں علم نہ ہوا۔ یہ غیر ضروری سامان کب ہمارے کچن سے ہمارے دستر خوان سے ہمارے فریج سے کب لذت لے گئے۔ کب اچانک مہمان کے لیے جھٹ پٹ تیار کیا گیا کھانا بنانے کا ہنر لے گئے،کب ہمارا سگھڑاپا اور سلیقہ لے گئے، ہم لا علم رہے۔

چند برس پہلے ہی کی تو بات ہے ادہر مہمان آئے ہم نے اپنی امی کو دیکھا ایک طرف سالن چڑھایا دوسرے چولہے پہ مٹر پلاؤ کی تیاری ہے۔ ساتھ ٹماٹر کی چٹنی کے لیے لہسن چھیل رہے ہیں ادھر دسترخوان لگایا ادھر امی نے سویاں بھوننی شروع کردیں۔ دعوت کا کیا خوب اہتمام ہوتا وہ بھی اچانک آئے مہمان کے لیے۔ اب جو اچانک کہیں پہنچ جائیں تو لاڈلی بیٹی نگٹس تل کے لے آئے گی یا بہو بیگم آن لائن کھانا آرڈر کردیں گی۔
چائے بنانا مشکل لگتا ہے اس لیے Tang اور کولڈڈرنک کا بائیکاٹ بھی مشکل ہے کہ اب تواضع کس سے کریں۔ بچے نے سبزی کھانے سے انکار کیا مما نے جھٹ سے نوڈلز تیار کردیے اب نوڈلز کا بائیکاٹ بھی مشکل لگتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا سبزی کے ساتھ پاکستانی ہندوستانی اسٹائل میں پوری یا پراٹھہ پکا کے کھلادیتیں۔

دیکھئے جب ہم کہتے ہیں کوئی بھی نظام پوری تہذیب کو بدل ڈالتا ہے تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ میکڈو نلڈز، یہ کے ایف سی صرف فوڈ چین کا نام نہیں ہے، یہ فاسٹ فوڈ کی تہذیب ہے اس نے نئی نسل سے شوربے والے سالن کی وہ افادیت چھین لی جس کا تذکرہ سیرت میں ملتا ہے۔

یہ محض برگر تو نہیں ہے اس کے پیچھے processed food کی پوری مارکیٹ ہے جس نے صحت کے نظام کو بگاڑ ڈالا۔ مائیں بہت فخر سے بتاتی ہیں ہمارے بچے سالن روٹی کھاتے ہی نہیں ہیں۔
وہ آنٹی کل بتارہی تھیں گھر میں جس دن سبزی بنتی ہے بہو باہر سے کھانا آرڈر کردیتی ہے۔ اب ایک ہی بچے کے بعد اگر بیگم صاحبہ دس برس بڑی لگنے لگیں تو قصور کس کا ہے؟ پھر ساتھ کولڈڈرنک اور چپس کے لوازمات۔

ایک دوسرا سوال جو بڑی شدت سے پوچھا گیا وہ Tea whitener Every day کا متبادل۔ حیرت ہے کہ یہ دودھ کب ہے یہ تو سفید پاؤڈر ہے جسے دودھ کے متبادل کے طور پہ چائے میں ڈالا جاتا ہے۔ مٹھاس سے بھرا پاؤڈر جو صرف وزن میں اضافہ کرتا ہے فائدہ کوئی نہیں دیتا۔ لیکن ہم اس کے بھی عادی ہیں۔
خوبصورت پیکنگ میں بھرے سامان جن میں آرٹیفیشل فلیورز کی بہتات ہے۔ preservatives سے بھری رنگ برنگی اشیاء اور ان سب کے ساتھ ٹھنڈی بوتل کا مزہ ہماری زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے ۔آپ لاکھ کہیں یہ نقصان دہ ہیں، ہم پیتے ہیں، پلاتے ہیں۔ وہ تو شکر کریں اہل غزہ کا ان کے ساتھ یکجہتی کرنے کھڑے ہوئے تو ہمیں علم ہوا ہم تو چیزوں کے غلام ہیں ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔جب لوگ Pakola کو متبادل بتاتے ہیں تو ہنسی آتی ہے یہ تو خود شدید میٹھا زہر ہے۔

کچھ پینا ہے تو لیموں کاشربت بنالیجئے۔ لسی بنالیں یا سادہ پانی ہی بہترین ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے ہم پانی بھی برینڈڈ پیتے ہیں۔ گویا دنیا کی لذتوں کے آگے مجبور ہیں۔ اب جو رسی ڈھیلی کرنا شروع کی ہے تو حیران ہیں خود سے سوال کرتے ہیں کیا ہم واقعی اس قدر بے بس ہیں۔

صرف نیسلے کی پراڈکٹس پہ غور کریں 90 فیصد غیر ضروری اشیاء جنہیں ہم نے لازم و ملزوم ٹہرایا پھر ہم شکایت کرتے ہیں بچوں کے قد نہیں بڑھ رہے، موٹاپا ہے، نوجوان جلدی تھک جاتے ہیں ۔یہ سب کیا ہے ۔یہ اسی عالمی معاشی نظام کی جکڑ بندیاں ہیں جس میں ہم برسوں سے جکڑے ہوئے تھے جس نے ہمارے خاندان ہمارے،ہماری روایات کو بدل ڈالا، ہمارے پروان چڑھتے نوجوان سب کو اثر انداز کیا ہے۔ آپ غور کریں مہینے کا لاکھ روپے کمانے والا بھی روتا ہے۔ وجہ کیا ہے غیر ضروری اشیاء کا ہماری زندگی میں ضروری بن جانا۔ آپ نے اسرائیلی و مغربی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا آپ کو مبارک ہو کچھ عرصہ بعد آپ محسوس کریں گے۔ یہ تو وہ چیزیں تھیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی اور ہم نے بلاوجہ ضروری سمجھا تھا۔ سادگی و کفایت شعاری کا سبق ملے گا، تازہ کھانے ملیں گے صحتیں اچھی ہوں گی تو ان شاء اللہ آپ کے گھر میں برکتوں کا نزول ہوگا۔ زندگی خود بخود سہل اور ہلکی پھلکی لگنے لگے گی۔

شکریہ اہل غزہ آپ نے ہمیں ایک نئے رخ پہ سوچنے کا موقع دیا۔

منیبہ راشد