حقیقت یہ ہے کہ اہل غزہ پہ اس وقت تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے غاصبوں نے ظلم وبربریت کی لرزہ خیز داستانیں رقم کی ہیں تاہم اہل غزہ کا صبر واستقامت بھی بلاشبہ انتہای قابل رشک ہے اور بلاشبہ اہل غزہ آیت مبارکہ

ولما رای المؤمنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله وما زادهم الا ايمانا وتسليما

کا مصداق ہیں لیکن افسوس کہ غزہ کے حوالے سے جو ذمہ داری اس امت پہ عائد تھی امت مسلمہ اسے اداء کرنے میں مکمل ناکام رہی ۔ مسلم حکومتوں نے غزہ کے حوالے سے جو کردار ادا کیا وہ بلاشبہ انتہائی افسوسناک بلکہ شرمناک رہا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے کافروں کا کردار ان مسلمان حکمرانوں سے ہزار درجے بہتر رہا۔ اسپین لندن نیویارک میں صلیب کے بچاریوں نے اہل غزہ پہ ہونے والے ظلم کے خلاف تاریخی اجتماعات منعقد کیے جن میں بلامبالغہ لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ بہت سارے کافر ممالک کے پارلیمنٹیرینز نے بھی شدت سے غزہ میں ہونے والی بربریت کو بند کروانے کا مطالبہ کیا غرض جس انسان کے دل میں معمولی سی بھی انسانی ہمدردی تھی وہ اس ظلم عظیم پہ چیخ اٹھا لیکن افسوس کہ بعض مدخلی فکر کے حاملین نے اس ظلم عظیم پہ مظلوموں کی مدد کی بجائے الٹا مظلوموں ہی کو اس سارے ظلم و ستم کا الزام دینا شروع کیا جو کہ بلاشبہ شقاوت و سنگ دلی کی بدترین مثال ہے۔
چند دن قبل ایک مصری شیخ صاحب هشام البيلى غزہ کے مجاہدین کے کمانڈر کو مخاطب کر کے یہ کہ رہے تھے کہ جی اہل غزہ کو توحید سکھاؤ اے ابو عبیدہ اپنے بچوں اور عورتوں کو من ربک اور ما دینک کے جواب سکھاؤ اپنی عورتوں کو شرعی پردہ سکھاؤ۔ دشمن کو تیر مارنا بہت آسان ہے لیکن سنت کا علم پھیلانا بہت مشکل ہے۔ جہاد بالسنن جہاد بالسیف سے اعلی و افضل ہے۔ جہاد بالسیف تو ہر کوئی کر سکتا مگر جہاد بالسنن تو انبیاء کے متبعین ہی کر سکتے لہذا تم بھی جہاد بالسیف کی بجائے جہاد بالسنن کرو۔ یہودیوں سے لڑنے کی بجائے یہ کام کرو اے ابو عبیدہ اگر تم اپنی قوم سے مخلص ہو ۔ان سے پہلے انڈیا کے مولوی صاحب بھی اہل غزہ کو یہی طعنے دے چکے کہ ان پہ ہونے والے ظلم و ستم کا سبب یہ ہے کہ ان کے پاس توحید نہیں اور غزہ کی عورتوں کے لباس اسلامی نہیں ہیں ۔یہ ہم نے دو مثالیں بیان کی ہیں وگرنہ مدخلی قوم کا یہ عمومی مزاج ہے کہ مسلمان جب کسی علاقے میں کفار کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہوں تو یہ امت کو اور حکام کو جہاد و قتال پہ ابھارنے کی بجائے مسلمانوں ہی کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ان میں موجود عقدی و اخلاقی کمزوریوں کو خوب اجاگر کرتے ہیں اور شقاوت و سنگدلی پہ مبنی اس رویے کو سلفیت کا نا م دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ خالصتا خوارج کا طرز عمل ہے اور اس کا سلفیت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔
ہم مداخلہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اہل غزہ کفار ہیں یا وہ مشرکین ہیں کہ جن کی ان سخت حالات میں مدد و نصرت کی بجائے انہیں توحید کے نا ہونے اور پردے اور بے دینی کے طعنے سلفیت کے نام پہ دیے جا رہے ہیں حالانکہ دین اسلام اور حقیقی سلفیت مظلوم کی مدد و نصرت کا نام ہے نا کہ مظلوم مسلمانوں کو ان کی دینی کمزوریوں کے طعنے مارنے کا۔ سفاکیت کی کس قدر انتہا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد والے حکم شرعی سے تو مکمل روگردانی ہے بلکہ فضول تاویلات کے ذریعے جہاد قدس جیسے عظیم فرض کو دفاعی جہاد ماننے سے انکار کیا جا رہا ہے تاکہ اسے جہاد اقدامی قرار دے کر اقدامی والی شرائط کے نا ہونے کا بہانہ بنا کر عملا جہاد قدس کو معطل کر دیا جائے اور مسلمانوں کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ مسلمان عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو کفار کی بربریت اور ظلم پہ اس طرح بے یار ومددگار چھوڑنا عین شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہے جبکہ اس کے بالمقابل یہی مدخلی ٹولہ مسلسل پچھلے ایک ماہ سے اہل غزہ پہ بے بنیاد الزام لگا رہا ۔پہلے یہ لوگ غزہ کے مجاہدین کو رو افض کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے اور اب یہ لوگ ان کی عوام پہ بے بنیاد تہمتیں لگا رہے ہیں کہ جی ان کی توحید ناقص ہے اور ان کی عورتیں شرعی پردہ نہیں کرتی ہیں۔
ایک لمحے کے لیے اگر اس اعتراض کو درست مان بھی لیں تب بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمان کے عقیدے یا عمل کی خرابی کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑا جائے اور اگر انسان اپنے مسلمان بھائی کو بے یار ومددگار چھوڑے اور اوپر سے اسے پردے اور توحید کے نا ہونے کے طعنے بھی مارے اور یہ سب کچھ وہ منہج سلف کے نام پہ کرے تو ایسا انسان بذات خود بدعتی ہے کہ وہ ایک غیر فطری اور شقاوت و سنگدلی پہ مبنی رویے کو منہج سلف باور کروا رہا۔

سلفیت کی حقیقی تعبیر ان حالات میں بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ طرز عمل ہے جو آپ نے 702ھ میں بلاد شام پہ تاتاریوں کے حملے کے وقت اپنایا۔ آپ نے لشکر تاتار کے حملے کے وقت امراء و حکام کے پاس جا جا کر انہیں جہاد پھر ابھارا۔ ان کے سامنے اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ اس معرکے میں تم غالب ہی رہو گے ناکہ آپ نے یہ کیا کہ شام کے باسیوں کو ان کی کمزوریوں کے طعنے مارے جیسے آج مدخلی اہل غزہ کو مار رہے حالانکہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے دور میں بھی شام کے علاقوں میں کثیر تعداد میں اشاعرہ اور صوفیاء پائے جاتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ اپنے طرز عمل سے یہ واضح کر گے کہ کفار کے حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کی جان مال عزت کا دفاع کرنا ہی حقیقی سلفیت ہے۔
اب آتے ہیں مداخلہ کے اس اعتراض کی طرف کہ اہل غزہ کے پاس توحید نہیں یا ان کی توحید ناقص ہے تو ہم یہ بات دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ یہ بالکل ہی باطل اور لغو اعتراض ہے جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اہل غزہ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت روے زمین کے بہترین لوگ ہیں اور ان کی توحید بہت سارے مداخلہ سے بہت بہتر ہے ۔جوان بچوں کی شہادت پہ غزہ کا ایک باپ شکر کا سجدہ کر رہا اور بار بار الحمد للہ کہ رہا اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کر رہا۔ ایک باپ اپنے بچوں کی شہادت پہ مٹھائی بانٹ رہا۔ ایک ماں کو سنا کہ رہی تھی کہ ہم میرا بچہ شہید ہو چکا اور یہ میرے لیے بہت ہی زیادہ سعادت کی بات ہے۔ ایک جوان باپ اپنی چھوٹی سی روتی ہوئی بچی کو بار بار الحمدللہ کہنے کی تلقین کر رہا۔ اہل غزہ کا ان سخت ترین حالات میں یہ حوصلہ اور صبر و استقامت بلکہ شکر ادا کرنا ان کی توحید کے کمال اور اللہ سے ان کے مضبوط تعلق کی اعلی دلیل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ابن قیم رحمھما اللہ نے کئی مقامات پہ اس بات کو لکھا ہے کہ مصائب پہ صبر کرنا فرض ہے اور اس سے اوپر والا درجہ یہ ہے کہ بندہ مصیبت پہ صبر کے ساتھ ساتھ اللہ سے راضی بھی ہو تاہم اس درجے کی فرضیت علماء میں مختلف فیہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ درجہ رضا مستحب ہے نا کہ فرض۔ اور اس سے بھی اوپر درجہ شکر ہے کہ انسان مصیبت کے وقت اللہ کا شکر ادا کرے اور بلاشبہ یہ بہت ہی اعلی مرتبہ ہے اور یہ اسے ہی نصیب ہوتا ہے جو توحید کے بہت اعلی مرتبے پہ فائز ہو اور یہ بات تو پوری دنیا نے دیکھی ہے کہ بہت سارے اہل غزہ نے ان حالیہ مصائب میں درجہ شکر کا مظاہرہ کیا حتی کہ بہت سارے کفار نے بھی ان کے اس کمال حوصلے کی تعریف کی اور کہا کہ انجیل میں جو اہل ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ اہل غزہ میں بہت زیادہ پای جاتی ہیں۔
ہم مداخلہ کو یہ بات کہتے ہیں کہ توحید محض چند عقائد کو اپنا لینے کا نام نہیں بلکہ توحید تو اللہ کو اس کی ذات صفات اور عبادت میں واحد ویکتا ماننے اور عملی طور پہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے کا نام توحید ہے اور عبادت محض رکوع سجدے طواف کا نام نہیں بلکہ عبادت میں اعمال قلوب مثلا اللہ سے محبت اللہ سے امید اللہ کا خوف اللہ پہ توکل آزمائشوں پہ صبر کی بہت زیادہ اہمیت ہے حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کی زبانوں پہ جس طرح اس تمام ظلم وبربریت کے باوجود اللہ کی حمد وثناء کے کلمات جاری ہیں تو یہ سب اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان کے دل اللہ کی محبت اللہ پہ توکل اللہ سے رجاء اور اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پہ صبر و رضا بلکہ شکر جیسی تمام اعلی ایمانی صفات سے بھرے ہوے ہیں اور یہ اعلی ایمانی صفات توحید الوہیت یا توحید عبادت کا اہم جزء ہیں اور یہ اعلی ایمانی صفات اسی انسان میں پیدا ہو سکتی ہیں جس کا اللہ کی صفات کمال مثلا رحم قدرت علم وغیرہ پہ کامل ایمان ہو اور ان صفات کمال پہ اعلی درجے کا ایمان ہونا ہی توحید اسماء و صفات کہلاتا ہے یعنی توحید الوہیت ہو یا توحید اسماء وصفات یا بالفاظ دیگر علمی توحید ہو یا عملی توحید دونوں میں اہل غزہ کا کمال درجہ اظہر من الشمس ہے۔ اسی طرح اللہ کے دشمنوں سے براءت اور دشمنی بھی اہل غز ہ کی گفتگو اور پیغامات میں بار دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ توحید کا اہم ترین جزء ہے اور یہاں ہم ان مداخلہ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ تم بتاؤ تم نے اہل غز ہ میں کون سا شرک یا توحید کے منافی معاملہ دیکھا ہے۔ جب تم نے ان کا کوئی شرک اور کفر نہیں دیکھا تو اس طرح بلا دلیل مسلمانوں کی توحید کو مشکوک بنانا خوارج والا طرز عمل ہے۔ اس لیے ہم اعلانیہ کہتے ہیں کہ اہل غزہ بلاشبہ اہل توحید ہیں اہل جہاد ہیں اہل قتال ہیں اور ان کی توحید کو ناقص قرار دے کر لعن طعن کرنے والوں کی اپنی توحید میں نقص ہے ۔۔۔۔۔اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت دے آمین

حنین قدوسی