اہل حدیث اور ائمہ کرام کا احترام
حالِ دل:
کوئی پندرہ برس ہوتے ہیں…مدینہ طیبہ میں دوران تعلیم ايام حج میں، حاجی صاحبان کی تعلیم و تربیت کے لئے نیم سرکاری ڈیوٹی لگا کرتی تھی… پینتیس دن عصر تا عشاء اور ريالات در ريالات…ایک روز حسب معمول عصر کے بعد روضۂ رسول(علی صاحبها افضل الصلاة وازكى التسليم) کی دائیں سمت پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی حاجیوں کے ساتھ تبلیغی گفت و شنید ہوئی… دوران گفتگو جن ائمہ کرام رحمہم اللہ کا نام آیا میں نے ادب و احترام سے ان سب کا نام لیا…درس کے بعد ایک سیاہ و سفید داڑھی والے سانولے سے ہندوستانی بزرگ میرے پاس آ کر کہنے لگے: بیٹا کس مسلک سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: مسلمان. جواب سن کر مسکراتے ہوئے بولے تو یوں کہو کہ اہل حدیث ہو….میں نے اثبات میں جواب دیا تو گویا ہوئے کہ اہل حدیث تو با ادب نہیں ہوتے…آپ کیسے با ادب ہیں…پھر ساتھ ہی بتایا کہ آنجناب قاسمی کے لقب سے ملقب… کبار علمائے دیوبند اور محمد بن عوامہ کے شاگرد بھی ہیں…گفتگو کا رخ دوبارہ احترامِ ائمہ کی جانب موڑتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی جہود و مساعی کا ذکر چھیڑ دیا…حجۃ اللہ البالغۃ کی مبحث سابع ذہن میں تھی اور اس پر مستزاد ” تحریک آزادی فکر” از مولانا محمد إسماعيل سلفي رحمہ اللہ کے مضامین نقش بر دل تھے تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فکر و فلسفہ اور ان کی کتب پر خصوصاً تبصرہ کرتے ہوئے حجۃ اللہ البالغۃ کے مقدمے اور مبحث سابع کا خلاصہ پیش کردیا اور احترام ائمہ کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی” رفع الملام” کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے انہیں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب کے مطالعے کا مشورہ دے ڈالا…قاسمی صاحب کہنے لگے: میاں آؤ تمہیں بزرگوں سے ملاتا ہوں…ویل چئیر پر سفید لباس میں ملبوس ایک بزرگ کے پاس لے گئے…
حاجی عبد الوہاب صاحب کہہ کر تعارف کروایا اور انہیں میرے متعلق کہا یہ نوجوان اہل حدیث ہے مگر ائمہ کرام کا نام نہایت ادب سے لیتا ہے اس کے حق میں دعا فرمائیں…بزرگ ہستی جن سے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی مجھ سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا…دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ تھپ تھپایا اور دیر تک دعائیں دیتے رہے اور کہنے لگے بیٹا اللہ آپ سے دین کا کام لے… پھر قاسمی صاحب نے حاجی عبد الوہاب صاحب کے دائیں بائیں موجود تمام باریش حضرات سے ملاقات کروائی جن میں ان کے بقول ایک شخصیت جامعہ بنوريہ کے” شیخ الحدیث” تھے…ایک بزرگ ” نائب شیخ الحدیث” کچھ حضرات دار العلوم دیو بند میں مدرس تھے…آخر میں ایک ہستی سے یہ کہہ کر ملاقات کروائی کہ صاحب مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے گرامی قدر ہیں اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں کسی عہدے پہ فائز ہیں…ان صاحب نے مجھ سے پاکستان میں پڑھے ہوئے نصاب کی بابت دریافت کیا پھر مدہینہ یونیورسٹی کے نصاب تعلیم اور یہاں کے اساتذہ کرام کے طریقہ تدریس کے متعلق کچھ سوالات کیے اور محنت کرنے کی تلقین کی…غور طلب بات یہ ہے کہ جس بھی ہستی سے میرا تعارف کروایا گیا یہ ضرور کہا کہ یہ نوجوان اہل حدیث ہے اور بزرگوں کا ادب کرتا ہے…افسوس ظاہر بینوں کی کوتاہ بینی اور زبان درازی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے…اس بدکلامی سے پہلے غیروں پہ کیچڑ اچھالا جاتا تھا اور اب عالَم یہ ہے کہ اپنے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں…بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حالی کے ان اشعار کے یہ حضرات مصداق نظر آتے ہیں کہ:
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
اور:
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہے کسی میں تو ہے اتفاقی
نثر نگار: حافظ عبد العزيز آزاد