سوال (3775)
اہل حدیث کا کیا موقف ہے تراویح کی بیس رکعت کے بارے میں اور پورا رمضان تراویح پڑھنا سنت سے ثابت کریں۔
جواب
بیس رکعات تراویح پر کوئی مرفوع موقوف روایت بھی ثابت نہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کے متعلق جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ ضعیف ہیں۔
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلاً یُصَلِّی بهمْ عِشْرِینَ رَکْعة۔ [ابن ابی شیبہ: 7764]
حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک آدمی کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔ اس کی سند میں انقطاع ہے۔
یحیی بن سعید انصاری نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ [سندہ ضعیف غیر ثابت]
13 رکعات تک تو ثابت ہے۔ [مسلم : 1720]
البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول 11 کا ہی تھا۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَيْفَ كَانَتْ *صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، [بخاری : 2013]
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ(اکثر) آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ گیارہ رکعات(بشمول وتر)چونکہ معمول تھا اسی لیے اہلحدیث بھی گیارہ ہی پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی ثابت ہے.
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً [موطا امام مالک : 230] سندہ,صحیح
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حکم کیا حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا کہا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم جو حافظ آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کے بعد دس رکعات قیام کرواتے ہیں اور پھر وتر الگ سے پڑھتے ہیں، اس کی رہنمائی فرما دیں۔
جواب: یہ عمل صحیح نہیں۔ مسنون رکعات صرف تیرہ تک ہیں ، البتہ اگر ایک امام دس رکعات پڑھاتا ،اور دوسرا الگ امام دس رکعات پڑھاتا تو اس سے یہ مراد نہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھائی گئی، جس طرح اگر ایک مسجد میں ظہر کی دو جماعتیں کروائی گئی تو اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ انہوں نے چار کی بجائے ظہر کے آٹھ فرض پڑھے۔
البتہ اہلحدیث مساجد میں تراویح اور قیام الیل کو الگ الگ نہیں پڑھانا چاہیے تاکہ اہل بدعت جو کہ بیس رکعات کو مسنون سمجھتے ہیں ان کی مشابہت نہ ہو۔ کل تیرہ رکعات تک ہی پڑھانی چاہیے انہی میں سے کچھ رکعات کو مختصر اور کچھ کو طویل قیام اللیل کی صورت میں تقسیم کرلیا جائے۔ اصلا تو یہ رات ہی کی نماز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ