اسرائیل فلسطین کی جنگ کا انچاسواں دن شروع ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ کی جہادی یلغاروں ، طوفانی حملوں اور دلیرانہ مزاحمت نے اسرائیلی غنڈے کا مار مار کر بھرکس نکال دیا ہے، حماس کے بن لادن ابو عبیدہ کی جہادی کارروائیوں کی تفصیل پر مشتمل روزانہ کی پریس کانفرنسز اور تفصیلات جہاں مجاہدین کے حوصلے بلند کرتیں وہاں اسرائیل کی افواج اور عوام کے اعصاب چٹخاتیں اور انھیں پزمردہ کرتی ہیں، اسرائیلی تاریخ میں پہلی مرتبہ یروشلم کی دیوار گریہ کے پاس یہودی ربیوں کے ٹولے ہارون اور موسی کے رب کو بگل بجا کر دہائیاں دے رہے اور حماس سے گلو خلاصی اور اسرائیلی ریاست کی بقاء کی فریادیں کر ہے ہیں ۔ مطلب اسرائیل کے برے دنوں کا آغاز ہو چکا اور زخم اتنے گہرے ہیں جس کی ٹیسیس صیہونی ریاست کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہیں اور جہادی ضربوں سے صیہونیت کراہ اور ہانپ رہی ہے، یہ تو محاذ جنگ کی تازہ سرسری صورت حال ہے، تفصیل پھر کبھی زیب قرطاس ہو گی۔ ان شاءاللہ۔
فی الوقت موضوع یہ کہ کیا کسی اسلامی ملک ، نہتے مسلمانوں یا موت کا ایندھن بنتے اہل غزہ، کھنڈرات میں بستے لہو لہو اہل فلسطین ، علاج سے محروم زخموں سے کراہتے بلکتے بچوں، عورتوں ، جوانوں ، 15000 ہزار سے زائد فلسطینی شھداء، بھوک سے ایک ایک لقمے کو ترستے ، پانی کی بوند بوند کے لیے تڑپتے اور زندگی کی ہر نعمت سے محروم اور خونخوار اسرائیلی درندے کے غضب کا شکار دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل غزہ کے بائیس لاکھ لوگوں کے مظالم کا بدلہ اور ان کے شہداء اور جانی ومالی نقصانات کا ازالہ احتجاجی مظاہروں ، ملین مارچوں ، بھرپور احتجاجی ریلیوں اور لاکھوں لوگوں کے اجتماعات سے ممکن ہے؟ ان زوردار مظاہروں ، احتجاجی ریلیوں اور لاکھوں لوگوں کے اجتماعات اور قائدین کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریروں سے اسرائیل پر دہشت طاری ہوئی یا ہوگی اور دنیا بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے سفاک صیہونی اپنے وحشیانہ حملوں سے باز آیا ہے یا حملے روکنے پر مجبور ہو گا ؟ ان معروضی حالات کو ہم شرعی نصوص اور ماضی قریب کے احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں پرکھیں گے اور ان مظاہروں کی شرعی حیثیت کا جائزہ لیں گے اور یہ جانچ کریں گے کہ ان احتجاجی تحریکوں کا کبھی مسلمانوں کو فائدہ ہوا ہے؟ یا دل کے بہلانے ، کارکنوں کو بھول بھلیوں میں الجھائے رکھنے اور اپنی بے حمیتی پر پردہ ڈالنے کا یہ ایک زبردست بہانہ ہے کہ راہ جہاد پر چلنے سے جو مشقتیں جھیلنا تھیں ، کالا پانی کی جو سزائیں کاٹنی تھیں اور امکانی شہادتوں کے خطرات سہنا تھے یا گوانتانامو بے ، پل چرخی اور بگرام جیلوں کے اذیت ناک عقوبت خانوں میں کرب ناک تشدد کا سامنا کرنا پڑنا تھا ، عزیمتوں کی یہ راہ ترک کر کے سمجھداری کا تقاضا یہی تھا کہ جوشیلی جہادی تقاریر سے مرد مجاہد کی کلغی بھی سجاؤ اور دیوثیت کے نقاب میں جہاد سے راہِ فرار اختیار کر کے کھوکھلے نعروں کی رسیا قوم کو مظاہروں کی بے وقعت راہوں پر ڈال کر پیسے بھی کھرے کرو، مذہبی سیادت وسیاست کے بھی مزے لوٹوں اور اپنی ان چالاکیوں اور عوامی بے وقوفی پر فخر کرو ۔
اولا دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہو، انھیں بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہو ، ان کے بچوں کو بھنبھوڑا جا رہا ہو، عزت مآب ماؤں بہنوں کی عصمتیں اور جانیں خطرے میں ہوں اور جوانوں کے لاشے گر رہے ہوں ، ان کی زمینیں غصب ہو رہی ہوں اور شہر اجاڑے جا رہے ہوں تو کیا دنیا بھر کے مسلمان احتجاجی مظاہروں ، ریلیوں ، مذمتی تحریکوں اور قرار دادوں اور لاکھوں کے اجتماعات کے ذریعے ان کے ساتھ خالی ہمدردی سے تعاون کریں گے، ان کی مالی امداد کی جائے گی یا محض کھوکھلے نعروں سے اسرائیل اور بھارت امریکہ کی تباہی کی داستانیں رقم کی جائیں گی یا ہمارا اگلا موضوع ” مظلوم مسلمانوں کی مدد جہاد کے ساتھ” یعنی جنگ میں عملی شرکت کر کے مظلوموں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اسرائیلی گماشتے کا تکبر ، غرور اور دہشت گردی کا جنون مٹی میں ملا دیا جائے اور ماضی کے سارے حساب برابر کر دیے جائیں؟
شرعی دلائل، سیرت کے درخشندہ پہلوؤں اور اسلامی تاریخ کے تابناک دستاویزی ثبوتوں کے تناظر میں اگر دنیا میں کسی مقام پر مسلمان عدم تحفظ کا شکار رہے ہیں، اسلام کی پاداش میں انھیں اذیتوں اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا ہے یا مسلمانوں کا بے دریغ مظلومانہ قتل عام ہوا ہے، انھیں ہجرتوں کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، زمین، جائیداد، اموال اور حکومتوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں تو دو طرح کی صورت حال کا پتا چلتا ہے:
ایک مسلمانوں کو کسمپرسی ، مفلوک الحالی ، مفلسی، افرادی قلت اور دشمنوں سے مقابلے کی فضا پیدا نہ ہونے کی صورت میں انھیں اپنے نظریات پر جم کر کھڑا رہنے ، بھرپور قوت ارادی سے اسلام کے ساتھ بے لچک وابستگی, صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور اذیتوں کی چکی میں پستے مجبور مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے کی تاکید کی جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں مسلمانوں میں اسلام کی اہمیت، عقیدہ توحید کے فضائل ، شرک کی نحوستوں، ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کا مفصل بیان ہے، فکر آخرت کا رسوخ،قیامت کی ہو لناکیوں ، ہلاک شدہ امتوں اور ان کے جرائم اور مفاسد بیان کیے جائیں۔ مکی صورتوں اور آیات میں اسی طرح کے مضامین ہیں جن کا مقصد اہل اسلام کو عقیدہ توحید، نظریہ اسلام، فکر آخرت اور اخروی کامیابی کے لیے مضبوطی سے قائم رہنے، جنت کے حصول کے لیے ہر ظلم سہنے، ہر جبر جھیلنے اور مصائب اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا تھا۔ (جاری ہے)

فاروق رفیع