کمزور صحابہ بلال، عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، والدہ سمیہ ، صہیب اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیھم پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، گرم پتھروں پر لٹایا گیا، بلال کی گردن میں رسی ڈال کر مکہ کے اوباشوں کے حوالے کر کے سخت دھوپ میں مکہ کے آگ کا روپ دھارے پتھریلے پہاڑوں پر گھسیٹا گیا، کون سو ستم اور ظلم کی کون سی قسم تھی جو ان مقہور صحابہ پر آزمائی نہ گئی ہو؟ خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان بدبخت مشرکین کے ہاتھوں محفوظ نہ تھے، انسانیت کے سب سے بڑے مقام پر فائز ، سید ولد آدم کو کئی بار تختہ مشق بنایا گیا لیکن اسلام، اخلاص اور باہمی ہمدردی کے رشتہ سے جڑے بے لوث اور اخوت پہ جانثار قیادت اور مظلوم پیروکاروں کی طرف سے نہ کوئی نرم سخت احتجاجی مظاہرہ، نہ ریلی اور نہ کوئی جلسہ، نہ گیدڑ بھپکیاں، نہ جعلی نعرے بازی، نہ مشرکین سے رحم کی کوئی اپیل اور نہ بے چارگی کا اظہار: ان کی استقامت کا اظہار اس پیرائے میں ممکن ہے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اور بقول دیگر:
دشمن سے کہو وہ چاہے تو دوبارہ ترکش اپنا بھر لائے
اس طرف ہزاروں سینے ہیں اس طرف اگر ہیں تیر بہت

مکی زندگی میں سخت جبر کے دور میں کچھ مسلمانوں نے مظالم سے تنگ آ کر دو مرتبہ ہجرت حبشہ تو کی لیکن ہڑتال احتجاج اور مذمتی قرار دادوں کا کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا حتی کہ جب مشرکین کی طرف سے اذیتوں کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا، مظلوم صحابہ کی برداشت جواب دینے لگی اور اعصاب چٹخنے لگے تو خباب بن ارت بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے شکایت کی جب کہ آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے تھے ۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! ” آپ ہمارے لیے نصرت کی درخواست نہیں کرتے، آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلے لوگوں میں سے ایک کے سر کی مانگ پر آرا رکھ دیا جاتا اور وہ اس کے قدموں تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈی کو الگ کردیا جاتا، یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔ “ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم ! یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا یا اسے اپنی بکریوں سے متعلق بھیڑیے کا ( خوف ہوگا) ، لیکن تم ایسے لوگ ہو کہ بہت جلدی کرتے ہو۔ “ [ صحیح بخاری : ٣٦١٢ ]
اتنے سخت اور مشکل حالات میں بھی صبر اور ضبط کی تعلیم دی گئی اور آئندہ آیت بھی اسی تناظر میں ہے۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اہل اسلام کو استقامت اور حوصلے سے اسلام پر ڈٹے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ ۞

یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ( البقرۃ: 214 )
المختصر ہجرت مدینہ تک مظلوم صحابہ مشرکین کے مظالم، اذیتوں، جان لیوا تکالیف، ذلتوں، رسوائیوں اور زخموں کا روگ پالے سسک سسک کر جی رہے اور اللّٰہ کے نصرت کے وعدوں پر غیر متزلزل ایمان کی بدولت میدانوں میں رسول ہاشمی کے ساتھ جم کر کھڑے اور پورے حوصلے سے جبر کا مقابلہ کرتے آ رہے تھے۔ اس دورانیے میں بے بس مسلمانوں کی یہ صورت حال تھی ، کوئی کسی کی مدد پر نہ قادر تھا، نہ انھیں ظلم سے نجات دینے کی پوزیشن میں تھا اور نہ ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت ملی تھی ، صبر ، حوصلے ، اچھے دنوں کی امید اور مظالم سے تحفظ کے لیے دعاؤں التجاؤں کے سلسلے جاری تھے، کوئی احتجاجی مظاہرہ ہوا، نہ کوئی مذمتی تحریک چلی، نہ مشرکین مکہ کے خلاف قرار داد منظور ہوئی اور نہ سڑکیں بند کر کے دھول اڑائی گئی ۔ کیوں کیا کائنات کے سب سے حساس انسان، صحابہ کے غم پیچ وتاب کھاتے اور مضطرب نبی رحمت کے سینے میں کیا دل نہیں تھا؟ کیا احد احد کی آوازیں لگاتے، کرب سے بلکتے بلال کی دلدوز صدائیں آپ کا، ابوبکر، عثمان اور علی کا سینہ نہیں چیرتی تھیں، آل یاسر پر توڑے گئے غم کے پہاڑوں نے آپ کا جگر چھلنی نہیں کیا تھا؟ ہر وقت صحابہ کے غم میں کڑھتا، جلتا بھنتا، دلگیر و دل شکستہ مہربان نبی ان کے مظالم دیکھ کر مظلوموں کی داد رسی سے مجبور کیوں تھا؟
اس لیے کہ نبی احکام الٰہی کا پابند تھا اور وحی دعوت وتبلیغ جاری رکھنے اور اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھنے کے فرامین پہنچانے کے پیغامات تک موقوف تھی۔ مضبوط نظریات کی حامل ایک جماعت تیار کرنا مقصود تھی، جو مستقبل میں غلبہ اسلام کے لیے طاغوتی قوتوں سے ٹکرا جائے، طوفانوں سے الجھ پڑے، دریاؤں میں کود جائے، بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دے، پہاڑوں کو سرنگوں کرے اور رضائے الٰہی کے لیے دو چار دن یا چند مواقع کے لیے نہیں پوری زندگیاں اسلام کی سر بلندی کے لیے وقف کر دیں، مکی زندگی میں ان بنیادوں پر کام ہوا اور پوری جانفشانی انتہائی دلجمعی اور بے لوث جذبوں کے ساتھ یہ کام ہوا۔
(جاری ہے)

فاروق رفیع