اہل السنہ کا سنت رسول ﷺ کے بارے عقیدہ
محاضرة: العقیدة الطحاوية
للشيخ صالح بن عبدالعزيز السندي حفظہ اللہ
موضوع: اہل السنہ کا سنت رسول ﷺ کے بارے عقیدہ
تدوین: حافظ نصر اللہ جاويد
إمام طحاوي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَإِنَّ جَمِيعَ ما أنزَلَ اللهُ تعالى في القرآنِ، وجميعَ ما صَحَّ عَنْ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم مِنْ الشَّرْعِ والبَيانِ كُلّهُ حَقٌّ.
اور (اہل السنہ یہ ایمان رکھتے ہیں) کہ جو کچھ اللہ نے قرآن میں نازل کیا ہے، اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہوا ہے، چاہے وہ بیان کے لیے ہو یا تشریع کے لیے، حق ہے۔
شیخ صالح السندي حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
الایمان بالنبي ﷺ فيه أمور أربعة:
آپ ﷺ پر ایمان لانے میں چار امور شامل ہیں:
1: اتباعه ﷺ عاما غير مخصص:
آپ ﷺ کی عام اتباع نا کہ صرف مخصوص چیزوں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان دین کے ہر ہر معاملے میں آپ علیہ السلام کو واجب الاتباع تسلیم کرے اور آپ علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے حکم کے آگے، اور آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ علیہ السلام کی سنت کے آگے سر تسلیم خم کردے۔
2: اتباعه ﷺ دائما غير مؤقت:
ہر وقت آپ علیہ السلام کی اتباع، نا کہ مخصوص وقت کے لیے۔
یعنی آپ علیہ السلام کی اتباع وقت کی قید سے بھی آزاد ہو۔ دن ہو یا رات ہو، آپ علیہ السلام کی اتباع کو ایک مومن اپنے اوپر واجب رکھے۔ یہ نا دیکھے کہ زندگی کا کونسا وقت ہے۔
3: اتباعه ﷺ مطلقا غير مقيد:
کسی شرط کے ساتھ مشروط و مقید کیے بغیر مطلق اتباع کرنا
یعنی مسلمان نے جس نبی ( ﷺ ) کا کلمہ پڑھ لیا، اس کی اتباع میں پھر کوئی قید نا لگائے۔ قید کسی بندے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے جیسے کسی انسان کی رائے کے ساتھ اتباع خاص کردی جائے کہ اگر اس بندے کی رائے کے مطابق سنت آئے گی تو مانوں گا ورنہ نہیں۔ اور قید کی دیگر صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔
4: اتباعه ﷺ خاصا بدون مشاركا فيه:
آپ علیہ السلام کی اتباع میں کوئی مشترک نا ہو بلکہ خاص اور خالص آپ ﷺ کی ہی اتباع کی جائے۔
یعنی بندے کا معیار قبول و رد صرف آپ ﷺ کی ہی ذات ہو۔ اس میں کسی دوسرے انسان کی ملاوٹ نا ہو۔ مثلا بندہ سوچے کہ ہاں آپ ﷺ کی اتباع بھی اچھی چیز ہے مگر دوسرے کی بات بھی ماننا مناسب ہے۔
یہ چار چیزیں آپ ﷺ پر ایمان کو لازم ہیں۔
ان کے بعد ان چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ ﷺ پر ایمان کے نتیجے میں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں:
يتفرع عن الإيمان بها اشياء:
١: محبة السنة:
سنت کی محبت:
کہ انسان کو آپ ﷺ کی سنت سے پیار ہو۔ اور پیار کا لازمی نتیجہ اتباع ہی ہوتا ہے۔ سنت کو دل کے اندر سب سے اچھی جگہوں میں سے جگہ دے۔ جب سنت سامنے آجائے تو دل میں ذرا کجی محسوس نا کرے۔ بلکہ بخوشی قبول کرے۔
٢: اعتقاد ان سنته ﷺ غاية الكمال:
کہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل غایت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کی اتباع برائے سنت کی اتباع کی جائے۔ نا کہ اس لیے کہ اس سے فلاں سائنسی فائدہ حاصل ہوتا، یا اس سے معاشرے کا فلاں مسئلہ حل ہوتا ہے۔ بلکہ یہ سب چیزیں از خود ہوتی ہیں تو اچھی بات ہے مگر انسان سنت کی پیروی ان نتائج کی “وجہ” سے نا کرے۔
٣: لزوم طاعته:
آپ ﷺ کی اطاعت پر التزام۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر کیفیت و حالت، زماں و مکاں کی قید سے بالاتر ہوکر ہر لمحے آپ ﷺ کی اتباع کرنے کی کوشش کرے۔
٤: المبادرة إليها بالفعل:
عمل میں لانے کے لیے جلدی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندے کو سنت پہنچ گئی تو فورا اس پر عمل کرنے کے لیے کوشاں ہو جائے۔ اچھا کل سے یا پرسوں سے کروں نا کہے، بلکہ فورا اسی لمحے سے اس پر عمل کی سعی شروع کردے۔
٥: التسليم التام:
مکمل تسلیم یعنی بغیر کسی حیل و حجت کے بندہ بالکل آنکھیں بند کر کے اس سنت کو تسلیم کرے۔ اس سے نکلنے کے طریقے نا ڈھونڈتا پھرے۔
٦: اعتقاد تقديمها على كل شيء سواها:
ہر دوسری چیز پر سنت کو مقدم رکھنے کا اعتقاد۔ کہ بندہ سنت کو ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت دے۔ اسے پیٹھ پیچھے ڈال کر دوسری چیزوں میں مشغول نا ہوجائے۔
٧: اعتقاد سلامتها من التناقض ومخالفتها بالقرآن:
سنت کے اندر تناقض(تضاد) اور اس کے قرآن کی مخالفت سے سالم ہونے کا اعتقاد۔ کہ بندہ ایک لمحے کے لیے بھی دل میں یہ خیال نا لائے کہ یہ کیا سنت تو خود ہی دوسری سنت سے منع کرتی ہے یا یہ کہ سنت تو قرآن کی مخالفت سکھا رہی ہے۔ نہیں، بلکہ اس بات کو باقاعدہ کوشش کر کے اپنے نفس کو سمجھائے اور اس پر ایمان رکھے کہ سنت کے تناقض یا سنت کی قرآن سے مخالفت ممکن ہی نہیں ہے۔ چاہے نئے نئے اٹھنے والے فتنوں کے سرغنے جو پٹیاں بھی پڑھاتے رہیں۔
٨: الاكتفاء بها وعدم الزيادة عليها:
سنت پر ہی اکتفاء کرنا اور اس سے آگے بڑھنے سے باز رہنا۔ اس سے مراد یہ کہ بندہ سنت میں وارد کام، قول، فعل، ذکر غرض ہر شے میں سنت کی
بتائی ہوئی مقدار پر راضی ہوجائے اور اس سے بڑھنے کی کوشش نا کرے۔ چاہے عمل میں زیادتی اسے جیسی بھی بھلی معلوم ہو۔
٩: تحكيمها في مواضع النزاع:
نزاع کے موقع پر سنت کو حاکم مانے۔ کہ بندے آپسی معاملات میں، دینی و عقدی اختلافات میں، اصول و فروع کی بحثوں میں، غرض ہر حالت میں سنت کی حاکمیت کو تسلیم کریں۔ اور اسے اس کے قائل ﷺ ہی کی طرح اپنے اوپر حاکم مانیں۔
یہ سب باتیں ذکر کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند قواعد اور بنیادی باتیں ذکر کی جائیں جو سنت کے حوالے سے بہت سے اشکالات دور کر دیں:
١: السنة شقيقة القرآن ولا ينفع الإيمان بواحد دون الآخر:
سنت قرآن ہی کی بہن ہے۔ ان میں سے کسی ایک پر ایمان لانا کافی نہیں ہے(بلکہ دونوں پر ایمان لانا واجب ہے)۔ آپ علیہ السلام نے خود فرمایا کہ مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی اس کے مثل ایک اور چیز(سنت) بھی دی گئی۔
اور اللہ تعالی نے اپ علیہ السلام کی توثیق کر دی کہ “وما ینطق عن الھوی○ ان ھو إلا وحي يوحى○ کہ آپ ﷺاپنے منہ مبارک سے نہیں بولتے مگر یہ کہ وحی آجانے پر۔
تو اس لیے قرآن اور سنت یہ دونوں ہی چیزیں اللہ کی طرف سے وحی ہیں۔ ان میں سے ایک پر ایمان اور دوسرے سے بے رخی، قابل قبول نہیں۔
٢: لا تناقض بينهما:
کہ ان دونوں میں اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات مومنوں کے ایمان کے اندر شامل ہے کہ صحیح اور مقبول سنت اور قرآن کی آیات کے اندر کوئی مخالفت نہیں ہے۔
٣: لا يمكن الاستغناء بالسنة عن القرآن في الإسلام:
کہ قرآن کے اندر سنت سے استغناء نہیں ہے۔ یعنی سنت کے بغیر قرآن سمجھنا ممکن نہیں اور اسلام کی عمارت نا مکمل ہے۔ اسلام سنت کے بغیر مکمل نہیں ہے۔
٤: من يطع الرسول فقد اطاع الله:
کہ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔
جس نے ان سب اعتقادات کے ساتھ سنت پر عمل کیا تو ایسی بات نہیں ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر اسے کچھ ملامت کی جا سکے۔ بلکہ دراصل اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی کہ رسول ﷺ تو صرف پیغامبر(پہنچانے والے) ہیں۔
٥: يستحيل فهم القرآن والعمل به بدون السنة:
کہ قرآن کا فہم اور اس پر عمل سنت کے بغیر ممکن نہیں۔
یعنی تفہیم القرآن کے وہ تمام دعوے، تدبر کے تمام راگ، عمل بالقرآن کے تمام بھاشن تب تک جھوٹ ہیں جب تک سنت کا فہم، سنت پر ایمان، سنت پر عمل اس میں داخل نہیں ہو جائے۔
٦: السنة حجة مستقلة مطلقة غير مقيدة:
سنت مستقل، مطلق اور غیر مقید حجت ہے۔ اس سے مراد یہ کہ سنے کی اپنی ایک الگ تشریعی حیثیت مسلم ہے۔ یہ ایک مستقل حجت ہے یعنی کوئی مسئلہ اگر صرف سنت سے ثابت ہوتا ہے تو وہ مقبول ہے۔ مطلق حجت ہے یعنی اپنے میں یہ خود ایک حجت ہے۔ غیر مقید حجت ہے یعنی بغیر کسی دوسری چیز (مثلا قرآن کی آیت یا کسی دوسرے اصول وغیرہ) کے ساتھ لازم و ملزوم ہوئے، یہ خود آزاد حیثیت میں تشریع کا حق رکھتی ہے۔
٧: السنة كلها حجة قولية كانت او اية واحدة:
سنت چاہے قولی یا کسی اور نوع کی، تمام کی تمام حجت ہے۔ یعنی پیغمبر اسلام ﷺ کا عمل ہو، قول ہو، تقریر ہو، غرض کہ کسی بھی صورت میں سنت ہمارے سامنے موجود ہو تو وہ ہر حالت میں حجت ہے۔
٨: انها حجة دائمة:
کہ سنت دائمی حجت ہے۔ یعنی کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ اس کی حجیت کسی زمانے میں جاکر ختم ہوجائے۔ یہ اسلام کے پہلے دن سے لے کر قیامت تک، حجت ہے، حجت تھی اور حجت رہے گی۔
٩: ثبوت حجية السنة ضرورة دينية:
حجیت سنت کا ثبوت دینی ضروریات میں شامل ہے۔ یعنی اس کے بغیر دین پر عمل، ممکن نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے بغیر دین ایک قابل عمل شے کی بجائے ایک معطل شے بن جائے گا۔
١٠: عداء السنة عداء الإسلام في الحقيقة:
سنت کی دشمنی دراصل اسلام کی دشمنی ہے۔ یعنی فتنے چاہے جتنے مرضی دل ربا نعروں کے ساتھ آجائیں، تدبر قرآن، تمسک بالقرآن، قرآن سے تعلق جوڑنا، تفہیم القرآن، فہم القرآن یہ سب کے سب اس وقت تک اسلام کی دشمنی پر مبنی نعرے ہیں جب تک کہ سنت کی دشمنی نا چھوڑ دیں۔ یا دوسرے الفاظ ان سب سے اسلام کو تب تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک یہ نعرے سنت کی چھلنی سے چھن نا جائیں، چاہے نعرے لگانے والے کی نیت جیسی بھی ہو۔