اہلِ توحید کی اک شان ہے ذاکر نائیک
وہ روشنیاں بانٹتا پھرتا ہے، وہ اجالے تقسیم کرتا ہے، وہ قصے نہیں سناتا، وہ کہانیاں نہیں گھڑتا۔ وہ قرآن و سنت کی خوشبوئیں عام کرنے کا خوگر ہے۔ جہاں جہاں کفر و شرگ کی تیرگیوں کا بسیرا اور ڈیرا ہے، وہاں وہاں وہ اسلام کی منور و تاباں کرنیں لے پہنچتا ہے۔ اس کی سرشت اور فطرت میں اسلام کی محبتوں کے سوا کچھ بھی نہیں، وہ توحید کا داعی ہے، وہ فرقوں کے بجائے، اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ مسلکوں کی قدغن سے آزاد ہے، وہ سخن فہم، سخن سنج اور سخن شناس ہونے کے باوجود مسلمانوں کی جانب لگائے گئے اپنی ذات پر لگے کسی اعتراض کا جواب نہیں دیتا۔اپنوں کے لیے وہ افتخار عارف ہے اس شعر کی مثل ہے:
مَیں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوہ ء حُسنِ بیاں کے ہوتے ہوئے
قرآن و سنت کی دعوت عام کرنا ہی اس کا شیوہ اور وتیرہ ہے۔ وہ مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے کے بجائے، کافروں کو مسلمان کرتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو اسلام کی بہاروں سے روشناس کروا چکا ہے۔ وہ مسلم امّہ میں افراق و تفریق پیدا کرنے والا مولوی نہیں بلکہ قرآن اور اسلام پر نقد و جرح کرنے والے غیر مسلموں کو پچھاڑ دینے والا ایک عظیم سکالر ہے. اس کی تحقیق، تشریح اور قرآن کی سائنسی تفسیر کے سامنے ڈاکٹر ولیم کیمبل جیسا شخص بھی انگشت بہ دنداں رہ گیا تھا اور اس نے اپنی شکست کا کھلے دل سے اعتراف کر لیا تھا۔ جب ڈاکٹر ولیم کیمبل نے مناظرے کی دعوت دی تو آج ڈاکٹر ذاکر نائیک پر طعن و تشنیع کرنے والے ملاؤں پر بھی سکتہ طاری تھا، کسی مولوی میں اتنا دَم خَم، سکت اور تاب نہ تھی کہ وہ ڈاکٹر ولیم کیمبل کے کسی ایک اعتراض کا بھی جواب دے پاتا۔کسی لق و دق صحرا کی مانند دنیا بھر کے مولویوں پر سکوت طاری تھا۔ آج ڈاکٹر ذاکر نائیک پر دانتا کلکل ڈالنے والے مذہبی انتشار پسند لوگ اُس وقت اپنے لبوں پر قفل ڈالے چپ تھے مگر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے امریکا جا کر اسے لاجواب کیا اور ایسی مات دی کہ آج تک ڈاکٹر ولیم کیمبل اور اس قبیل سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں کے لبوں پر قفل پڑے ہیں۔وہ کسی مسلک کا داعی نہیں بلکہ اسلام کا مبلغ ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو کافر قرار نہیں دیتا بلکہ کافروں کو اسلام سمجھاتا اور دائرہ ء اسلام میں داخل کرتا ہے۔وہ اسلام کے متعلق ابہام اور اشکال رفع کرنے کا ماہر ہے. یہ اللہ رب العزت کا بے کراں کرم ہے کہ ہم عہدِ ذاکر نائیک میں زندہ ہیں۔ دورانِ خطاب اسے کسی کتاب، کسی کمپیوٹر اور کسی معاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ قرآن کی سورۃ نمبر، آیت کا عربی متن اور ترجمہ بتاتا چلا جاتا ہے۔بائیبل، ورس نمبر، اولڈ ٹیسٹیمنٹ چیپٹر نمبر، ورس نمبر، نیو ٹیسٹیمنٹ چیپٹر نمبر، ورس نمبر، ہیبرو ٹیکسٹ، انگلش میننگز، بھگوت گیتا، سنسکرت، انگلش میننگ، ہندی مطالب بیان کرنا اسی کی تقریر کا خاصہ ہے۔وہ آبروئے ملتِ اسلامیہ کا محافظ ہے۔
وہ امت مسلمہ کے لیے گوہرِ گراں مایہ ہے۔البتہ مناقشت اور منافرت کے جوہڑ میں گھرے فرقہ پرست مولویوں کے لیے وہ ایک خطرہ بھی ہے اس لیے کہ وہ سب کے لیے مودت اور محبت کا پیام لیے پھرتا ہے اور اس فرقہ پرستوں کو اپنی موت دِکھائی دیتی ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کی تحقیق کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک گیارہ لاکھ سے زیادہ غیر مسلموں کے سینوں میں اسلام کا شعور و ادراک جاگزیں کر کے انھیں مسلمان کر چکا ہے۔اس کا اسلوب دعوت سب سے جدا ہے۔بے یقینی اور کفر و الحاد میں گِھر کر دشتِ حیات میں بھٹکنے والے لاکھوں غیر مسلموں کے لیے وہ راہِ ہدایت کے دَر وا کر چکا ہے۔ وہ زبان میں لکنت ہونے کے باوجود جب بولتا ہے، تو اس کا شیریں انداز تکلم کسی آبشار کی مانند دلوں پر نور کی برسات کرنے لگتا ہے۔ فرحت احساس کا شعر ہے:
شستہ زباں، شگفتہ بیاں، ہونٹ گُل فشاں
ساری ہیں تجھ میں خوبیاں اردو زبان کی
الم کی فصیلوں میں قید کتنے ہی لوگ اس کے نرم اور دھیمے لب و لہجے کے باعث قرآن وسنت کو حرزِ جاں بنا چکے ہیں۔ وہ واہموں اور وسوسوں کے جُھنڈ اور غول سے بڑی ہی آسانی کے ساتھ باہر نکال لاتا ہے۔ وہ جب بولتا ہے سننے والوں کے دلوں کے مضافات اور مکافات میں قرآن و حدیث کے اجالے امڈ آتے ہیں۔ آج اسے غیر مسلموں سے نہیں بلکہ اپنوں سے خطرہ ہے، مگر وہ سب مصائب و آلام برداشت کرتا ہنستا مسکراتا اسلام کی آبیاری کرتا چلا جا رہا ہے۔ اصغر گونڈوی کا کہنا ہے:
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
اس کا پہلا مناظرہ کرسچن سکالر ڈاکٹر ولیم کیمبل کے ساتھ ” قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں “ کے عنوان سے تھا، جس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن جب کہ ولیم کیمبل نے بائبل کو سائنس سے ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے۔ اس کا ایک اور مناظرہ ” اسلام اور ہندو مت میں خدا کا تصور “ کے عنوان پر ہندو سکالر سری سری روی شنکر کے ساتھ تھا۔ایک اور مناظرہ ” گوشت خوری “ کے موضوع پر تھا، جس میں ہندوؤں کے مناظر رشمی بھائی زاویری کے ساتھ اس کی گفتگو تھی۔سب مناظروں میں اس نے اپنے مدِ مقابل کو شکست دی۔ اسلام کے اس مہکتے گلاب، چمکتے ماہ تاب اور دمکتے آفتاب کو میرا عقیدتوں بھرا سلام۔
دینِ حق کا نگہبان ہے ذاکر نائیک
اہلِ توحید کی اک شان ہے ذاکر نائیک
غم نہ کر رب تجھے برباد نہ ہونے دے گا
تیرا دشمن بڑا نادان ہے ذاکر نائیک
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )