سوال
کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح البخاری میں اہل بیت کے ساتھ علیہ السلام کا لفظ استعمال کیا ہے؟ اور ساتھ ہی اس مسئلہ کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف بھی واضح کر دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ منہج نہیں ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر افرادِ اہل بیت کیساتھ ’علیہ السلام‘ یا ’علیہا السلام‘ کے الفاظ استعمال کریں، صحیح بخاری وغیرہ کے بعض نسخوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں، جو کہ بعد کے ناسخین کا تصرف ہے، خود صحیح بخاری کے بعض معتبر ترین نسخوں میں ایسی چیزیں نہیں ملتیں۔
بطور مثال ابن سعادہ کا قلمی نسخہ لیا جا سکتا ہے، جو مکمل دستیاب نسخوں میں صحیح البخاری کا آج تک کا قدیم ترین نسخہ ہے، یہ قریبا آٹھ صدیاں پہلے کا تحریر شدہ مکمل قلمی نسخہ ہے۔ جو کہ اصل شکل میں ترکی سے شائع ہوا ہے۔
اسکی حدیث نمبر [2911] ہے جس میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور رضی اللہ عنہا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، صحیح البخاری کے اس قدیم ترین قلمی نسخے میں کہیں بھی اہل بیت کے نام کیساتھ علیہ السلام کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے، بلکہ پورے نسخے کے اندر امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے جو الفاظ منقول چلے آئے ہیں وہ ’رضی اللہ عنہ‘ اور ’رضی اللہ عنہا‘ کے ہی ہیں۔
اس حوالے سے دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ کسی مصنف کی کسی کتاب میں اس طرح کی چیزوں کو (مثلا صلی اللہ علیہ وسلم، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ) حتمی طور پر مصنف کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس طرح کی کمی بیشی کاتب، ناسخ ،طابع وغیرہ سے ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے یہ باتیں کئی نسخوں میں ملتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں اسی طرح کئی طبعات میں ہوتی ہیں کئی میں نہیں ہوتیں۔
لہذا اس طرح کی کوئی بات مصنف کی طرف منسوب کرنے کے لیے کوئی قوی دلیل یا قرینہ ہونا چاہیے کہ واقعتا مصنف نے اس کو ایسے ہی لکھا ہے۔ محدثین کی طرف صرف اہل بیت کے ناموں کے ساتھ ’علیہ السلام‘کو منسوب کرنے والوں کے پاس آج تک ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وقد غلب هذا في عبارة كثير من النساخ للكتب، أن يفرد علي رضي الله عنه، بأن يقال: “عليه السلام”، من دون سائر الصحابة، أو: “كرم الله وجهه” وهذا وإن كان معناه صحيحا، لكن ينبغي أن يساوى بين الصحابة في ذلك؛ فإن هذا من باب التعظيم والتكريم، فالشيخان وأمير المؤمنين عثمان بن عفان أولى بذلك منه، رضي الله عنهم أجمعين”. [تفسیر ابن کثیر: ٤٧٨/٦]
’’بہت سے ناقلینِ کتب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ خصوصی طور پر(علی) “علیہ السلام” یا “کرم اللہ وجہہ” لکھتے ہیں، جب کہ دیگر تمام صحابہ کرام کے لیے ایسا نہیں لکھتے۔ معنی کے لحاظ سے یہ درست سہی، تاہم تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکریم و تعظیم کے لیے ایک جیسے ہی الفاظ استعمال کرنے چاہییں۔ اگر امتیازی الفاظ کی اجازت دی جائے تو سب سے زیادہ اس کے مستحق حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“قال الشيخ أبو محمد الجويني من أصحابنا: هو في معنى الصلاة ، فلا يستعمل في الغائب، فلا يفرد به غير الأنبياء ، فلا يقال: علي عليه السلام ، وسواء في هذا الأحياء والأموات”. [الأذكار، ص : ١١٨]
’’ہمارے اصحاب میں شیخ ابو محمد الجوینی نے کہا ہے: سلام، یہ صلاۃ کے معنی میں ہے، لہذا یہ کسی غیر موجود کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کا استعمال انبیاء کے علاوہ کسی کے ساتھ نہ کیا جائے۔ چناں چہ علی علیہ السلام کہنا درست نہیں۔ یہ لفظ (علیہ السلام) زندہ اور فوت شدہ (غیر انبیاء) دونوں کے لیے استعمال کرنا نا درست ہے‘‘۔
اسی طرح مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بہت سے علماء اور اہلِ سنت بھی تساہلاً یا ماحول سے تاثر کی بنا پر حضرت علی اور ان کے بیٹوں کے ناموں پر “علیہ السلام” کا لفظ تحریر کر دیتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے نزدیک ایسا لکھنا درست نہیں۔ نیز اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناقلین نے ایسا لکھ دیا ہو، مصنف کو اس میں کوئی دخل نہ ہو‘‘۔ [مقالات مولانا عبدالخالق قدوسی ص: ١٢٦]
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایک مغالطہ لوگوں کو یہ دیا جاتا ہے کہ فلاں عالٍم نے فلاں صحابی کے لیے “علیہ السلام” لکھا اور فلاں غیر صحابی کے لیے “رضی اللہ عنہ” استعمال کیا ہے، ہم عرض کریں گے کہ واقعی بعض علماء نے اسی طرح لکھا ہے، لیکن اس کی وجہ محض سہل نگاری ہے یا عقیدت میں افراط۔ ان کی نظر شاید لغت ہی پر رہی لیکن جمہور علماے سلف و خلف نے ایسا نہیں کیا ہے اور دلائل کے لحاظ سے یہی مسلک صحیح اور برحق ہے‘‘۔ [آثار حنیف بھوجیانی: ١/٢٣٦]
مزید فرماتے ہیں:
’’اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے “علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطۂ نظر کے فروغ کا باعث ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے‘‘۔ [آثار حنیف بھوجیانی: ۱/۲۳۷]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس بابت استفسار کیا گیا تو فرمایا:
“لا ينبغي تخصيص علي رضي الله عنه بهذا اللفظ، بل المشروع أن يقال في حقه وحق غيره من الصحابة رضی الله عنهم أو رحمهم الله، لعدم الدليل على تخصيصه بذلك، وهكذا قول بعضهم (كرم الله وجهه)، فإن ذلك لا دليل عليه ولا وجه لتخصيصه بذلك، والأفضل أن يعامل كغيره من الخلفاء الراشدين، ولا يخص بشيء دونهم من الألفاظ التي لا دليل عليها”. [مجموع الفتاوی:٦/٣٩٩]
’’حضرت علی کے لیے “علیہ السلام ” کے الفاظ کی تخصیص کرنا درست نہیں بلکہ آپ کے حق میں اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں”رضی اللہ عنہم” کے الفاظ استعمال کرنا مشروع ہے یا “رحمۃ اللہ علیہم” کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بہ طور خاص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے “علیہ السلام” یا “کرم اللہ وجہہ” کے الفاظ استعمال کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، لہذا افضل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کے لیے بھی وہی الفاظ استعمال کیے جائیں جو دیگر خلفائے راشدین کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ایسے الفاظ ان کے لیے بطور خاص استعمال نہ کیے جائیں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچے سمجھے “امام حسین علیہ السلام ” بولتی ہے ، حالاں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ “امام” کا لفظ بولنا اور اسی طرح “رضی اللہ عنہ ” کے بجائے ” علیہ السلام” کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے “حضرت ” کا لفظ استعمال کرتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ، ہم کبھی “امام ابوبکر صدیق،، امام عمر ” نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی کے بعد ” رضی اللہ عنہ ” لکھتے اور بولتے ہیں اور کبھی “ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضرت عمر علیہ السلام” نہیں بولتے ، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ “رضی اللہ عنہ” کے بجائے “علیہ السلام ” بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟
دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے، اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ “امامت” کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے “امام ” کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے “علیہ السلام” لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابیِ رسول ہیں، امام معصوم نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت ِ معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ کرام کی طرح “حضرت حسین رضی اللہ عنہ” لکھنا اور بولنا چاہیے، “امام حسین علیہ السلام ” نہیں، کیوں کہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔” [رسومات محرم الحرام، ص: ٣٠]
یاد رہے لغوی اور معنوی اعتبار سے ’علیہ السلام‘ کہنے اور لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو ’السلام علیکم‘ یا ’علیک وعلیہ السلام‘ کہا جاتا ہے، یعنی سلامتی کی دعا ہی ہے، لیکن صرف حضرت علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور دیگر افرادِ اہل بیت وغیرہ کے ساتھ اس کی تخصیص درست نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے اس لیے بھی اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے شیعیت کے باطل عقائد کی حمایت اور تائید کا شبہ پیدا ہوسکتا ہے۔
ایسا لفظ اور جملہ جو مشکوک، فتنہ، یا کسی باطل عقیدے کے لیے شعار بن جائے، اس سے اجتناب کرنے کا حکم قرآن کریم نے بھی دیا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے:
“يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَاسۡمَعُوۡا ؕ وَلِلۡكفِرِيۡنَ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ”. [البقرة: 104]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ’’رَاعِنَا‘‘ (ہماری رعایت کر) مت کہو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (ہماری طرف دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘۔
مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے، یہودی بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جیسا کہ سورۂ نساء (46) میں ہے، جس سے وہ لفظ گالی بن جاتا۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا اور اسکی جگہ “انْظُرْنَا” کہنے کا حکم دیا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سامرودی عبد الحنان حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ