سوال (6236)

ساہیوال میں اہل حدیثوں کے دو مدارس کے طلباء اساتذہ قاری صاحبان انتظامیہ امام صاحبان کرکٹ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ میں گئے وہاں جاکر ظہر کے ساتھ عصر کی نماز ادا کی کیا ایسا کرنا درست عمل ہے؟ کیا ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ جمعے کے خطبے میں باقاعدہ اس عمل کو سنت کے مطابق کہا گیا اور اس کا باقاعدہ دفاع کیا گیا دونوں مدارس کے تقریباً 50 سے زائد طلباء نے یہ عمل دیکھا اور کیا اب وہ طلباء اپنی آنے والی ساری زندگی میں یہ عمل دہراتے رہیں گے اگر یہ عمل غلط ہے تو اس کا مدلل جواب دے دیں؟

جواب

سوال میں وضاحت نہیں ہے، اگر مسافت سفر کا تھا، تو مسافر کے حکم میں ہیں، مسافر جمع تقدیم و تاخیر دونوں کر سکتا ہے، انہوں نے جمع تقدیم کی ہے، اگر وہ مسافر نہیں تھے، تو کبھی کبھار کی رخصت پر عمل کیا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش کے نمازوں کو جمع کیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ہے کہ یہ کیوں؟ تو انہوں نے فرمایا ہے کہ تاکہ امت پر مشقت نہ ہو، اس پر سختی نہیں ہے۔ شاید اس پر عمل کیا ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: گراؤنڈ ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ کیا وہ جمع صوری نہیں تھی؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ایک ساتھ آٹھ رکعت، اور سات رکعت نماز پڑھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا، اور عصر میں جلدی کی، اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔ ( سنن نسائي حدیث نمبر: 590 )
سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے (ابوشعشاء) جابر بن زید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعات (ظہر اور عصر) اکٹھے اور سات رکعات (مغرب اور عشاء) اکٹھے پڑھیں۔ (عمرو نے کہا) میں نے ابو شعشاء (جابر بن زید) سے کہا کہ میرا خیال ہے آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر جلدی پڑھی اور مغرب کو موخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔ انہوں نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ [صحیح مسلم حدیث نمبر: 1634]
جواب: بعض علماء جمع صوری کی طرف گئے ہیں، راجح قول جمع حقیقی کا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جمع حقیقی والی بات درست ہے، تمام دلائل کی روشنی میں یہی بات درست ہے۔ تقدیم و تاخیر جمع حقیقی پر مبنی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: کیا یہ عمل جو آپ بتا رہے ہیں یعنی ظہر کے ٹائم عصر اور مغرب کے ٹائم عشاء کو ادا کرنا کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ثابت ہے؟
جمع صوری یعنی ظہر کو تاخیر کرنا اور عصر کو اسکے اول وقت میں ادا کرنا اس ہی طرح مغرب اور عشاء میں بھی یہی کرنا۔
ابن عباس رضِی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل بھی یہی ہے اور امام الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی ہے (نسائی 590)
آپ جمع کی جو تشریح کررہے ہیں کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے؟
جواب: میں نے جو بات کی ہے، اس پر ادلہ ہیں، لیکن یہاں ادلہ ذکر نہیں کیے جا سکتے ہیں، ہم نے اپنے مسلک کو کنگھال کر پڑھا ہے، ہمارے اس کے قائل جماعت المسلمین کا جوٹھا کھا کر پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں، جمع صوری کا انکار نہیں کرتے ہیں، لیکن راجح قول جمع حقیقی ہے، تقدیم و تاخیر دونوں ہیں، تمام ادلہ کو پڑھ کر ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم یعنی ظہر کے وقت عصر ادا کرنے کے متعلق امام النبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا کسی صحابی سے کوئی عمل ثابت نہیں؟ یہ صرف علماء کی رائے ہے؟
جواب: باب: دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان۔ حدیث نمبر:602, سنن نسائي, https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?bookid=5&hadith_number=602

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ