میں جماعت اسلامی کے خرم جاہ مراد رحمہ اللہ کو جس قدر پڑھتا جاتا ہوں، اتنا ان کے رسوخ فی العلم، وسعت مطالعہ، دور اندیشی، گہری فکر و نظر، حالات کے بہترین تجزیہ اور امت مسلمہ کو۔درپیش مسائل کے حل سے متعلق ان کی عمیق نگاہ کا قائل ہوتا جاتا ہوں۔ وہ بہت پریٹیکل مسلمان تھے۔ نظریاتی کج بحثوں میں پڑتے ہی نہ تھے۔ انکی پوری زندگی فقط عملی کاموں سے عبارت تھی۔ وہ مشہور زمانہ اور انقلابی فزیکسٹ اسٹیو ہاکنگ تک کے پاس پہنچ گئے تھے اسلام کی دعوت دینے کے لیے کیونکہ انکو حسن ظن تھا کہ قرآن کہتا ہے کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کائنات میں نظر دوڑاؤ تم اللہ کی صناعی کو دیکھو گے (او کما قال)۔
پس ان کا ماننا تھا کہ اللہ شاید اسکو ہدایت دے دے پس اپنا دعوتی فرض ادا کرنا انہوں نے واجب سمجھا۔ سقوط بنگلہ دیش سے قبل وہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے ذمہ دار تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے جو کچھ تجزیات دیے، حکومت کی توجہ بار بار جن مسائل اور خرابیوں کی طرف متوجہ کروائی، وقت و حالات نے بعد میں ثابت کردیا کہ ان کی طرف حکومتی بے توجہی ہی مشرقی پاکستان کی علحیدگی کا سبب بنی۔ خرم جاہ مراد رحمہ اللہ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے ساری زندگی مفتی کے بجائے داعی کی حیثیت سے گزارنے کو ترجیح دی اور افتاء کا کام مفتی حضرات کے لیے چھوڑ دیا۔
انہوں نے مسلمانوں کے مسائل کو نظریاتی سے زیادہ عملی تناظر میں دیکھا اور پھر نظریاتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کے حل تجویز کیے۔ میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے خرم جاہ مراد رحمہ اللہ کی طرف سے دی گئی عملی تجاویز کو پڑھتا ہوں تو ان کی عبقریت پر حیران رہ جاتا ہوں۔ افسوس کہ ہماری قوم و ملک نے ان جیسے عملی شخص سے اصل کام ہی نہیں لیا۔ ترقی یافتہ قومیں ایسے نابغوں کو اپنی بیوروکریسی میں رکھتی ہیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔
یہ یاد رکھیے کہ دیگر جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی نے 1965 کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی تھی۔ کاش اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات پس پشت ڈال کر فاطمہ جناح کے ساتھ ہوجاتیں تو بطور صدر پاکستان فاطمہ جناح کا انتخاب پاکستان میں فوجی حکومتوں کے تابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت پوتا اور پاکستان میں جمہوریت کبھی ڈی ریل نہ ہوتی۔ ازروئے شریعت عورتوں کی حکمرانی کے ناجائز ہونے کا نظریہ رکھنے والے خرم جاہ مراد اور سید مودودی وغیرہ نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اھون البلیتین کے تحت فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اور وقت نے ان کے اس اقدام کے صواب ہونے پر مہر تصدیق ثبت بھی کردی۔

فہد حارث