سوال (806)
کیا ایک مجلس میں تین طلاقیں ہو سکتی ہیں ؟
جواب
کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی ہے۔دلائل حسب ذیل ہیں:
(1) : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا [صحیح مسلم، الطلاق،1472]
تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔[ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار]
(2) : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔[مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر]
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. [فتح الباری : 362/ 9]
یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔
بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل [ایک مجلس میں تین طلاق] نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔
[لجنۃ العلماء للإفتاء فتوی نمبر: 82]