سوال (4501)
“انْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى”
اس حدیث کے حوالے کے علاؤہ کسی دوسری حدیث سے داڑھی کے مکمل رکھنے اسے معاف کر دینے کے بارے میں ملتا ہے؟ یعنی ایک مٹھی داڑھی سے بڑی داڑھی پر دلائل مزید مل سکتے؟
جواب
آپ اگر میری چند گذارشات سمجھ لیں تو آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے زندگی بھر داڑھی کاٹنا ثابت نہیں اسی طرح کسی بھی صحابی سے مشت سے زائد داڑھی کاٹنا ثابت نہیں ہے۔
مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کے جواز پر بعض کے دلائل کی مختصر توضیح،
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ کا خاص عمل سنت کی روشنی میں نہیں تھا جو مدعی ہے وہ اس پر دلیل پیش کرے
ان کا خاص ایام حج میں ایسا کرنا بتاتا ہے کہ وہ اجتہاد کرتے ہوئے اسے بھی تقصیر میں شامل سمجھتے تھے جبکہ حلق و قصر دونوں عمل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیان ونقل کرتے ہیں مگر کسی صحابی نے داڑھی کا قصر،کٹوانا،تراش،خراش بیان نہیں کیا ہے۔
جن صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی لمبی داڑھیاں تھیں وہ کس حکم میں جائیں گے اس پر غور کریں۔
تو جو اہل علم مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنے کا موقف رکھتے ہیں وہ اس پر نص صریح پیش کریں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ حفظہ اللہ
مطلقا داڑھی کٹوانے کو جائز قرار دینا غلط ہے۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجتہاد تھا کہ وہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ دیتے تھے۔ لیکن باقی جمہور صحابہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حتی کے تمام انبیاء کا یہی عمل تھا کہ داڑھی کو اس کی اصل حالت میں چھوڑ دیا جائے بغیر کاٹے بغیر سیٹ کروائے۔
داڑھی کو معاف کرنے، اصل حالت میں چھوڑنے کا حکم ہے۔[بخاری : 5893]
البتہ جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما وغیرہ کے اجتہاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مٹھی سے زائد داڑھی کٹوا دیتا ہے۔ [بخاری: 5892]
تو اس کے عمل کو حرام نہیں کہتے لیکن یہ راجح نہیں۔ مرفوع حدیث ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
بارك الله فيكم
آپ کا یہ جواب ناقص اور غیر موافق ہے۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سمیت کسی بھی صحابی سے مشت سے زائد داڑھی کاٹنا ثابت نہیں ہے۔سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ سے صرف ایام حج میں یہ عمل ثابت ہے اور وہ اسے تقصیر میں شامل سمجھتے تھے یعنی ان کا عمل دلیل شرعی کی بنیاد پر نہیں تھا۔
رہا مسئلہ عدم نکیر کا تو اور بھی چیزیں ہیں جن پر نکیر نہیں ملتی ہے جیسے سیدنا ابو طلحہ رضی الله عنہ کا روزے کی حالت میں برف کے اولے کھانا( مسند أحمد بن حنبل:(13971 صحیح) یہ عمل سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ کے سامنے ہوا مگر نکیر کرنا یا منع کرنا ثابت نہیں نہ ہی کسی اور صحابی سے نکیر ملتی ہے۔
تو کیا اس عمل پر بھی مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کو جائز سمجھنے والے اپنے اس غیر اصولی اور کمزور موقف کی وجہ سے جائز قرار دیں گے کہ حالت روزہ میں اولے کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی چیزیں اور باتیں ہیں مگر اسے ضرورت پر پیش کریں گے
حق یہی ہے کہ داڑھی کاٹنا کتاب وسنت تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔
جبکہ کئ صحابہ کرام کبار سلف صالحین سے طویل داڑھیاں رکھنا ملتا ہے اور یہی راجح ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
قاری صہیب میری محمدی صاحب کی کتاب اس حوالے سے جامع ہے تمام دلائل کو جمع کردیا گیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ