سوال (4998)
علی نے بچپن میں (تیرہ سے پندرہ سال کی عمر) ایک گناہ چھوڑنے کے لیے تقریباً 50 قسمیں کھائیں، مگر بار بار ٹوٹ گئیں۔ اب (عمر بیس سال) وہ پوچھ رہے ہیں، کیا ہر ٹوٹی ہوئی قسم پر الگ الگ کفارہ دینا ہوگا یا سب پر ایک ہی کفارہ کافی ہے، کیونکہ سب قسمیں ایک ہی مقصد کے لیے تھیں؟ اس میں یہ بھی وضاحت کر دیں کہ اگر کفارہ بہت زیادہ ہو جو انسان ادا ہی نہ کر سکتا ہو تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب
اگر قسم ٹوٹ جائے بندے نے کفارہ بھی ادا نہ کیا ہو، بندہ دوسری قسم اٹھائے، وہ ٹوٹ جائے پھر اٹھائے تو پھر یہ ساری قسمیں ایک ہی شمار ہونگی، ایک ہی قسم کا کفارہ دینا پڑے گا، اگر ایک قسم اٹھائی، ٹوٹ گئی اور قسم کا کفارہ دے دیا، پھر قصدا و ارادتاً دوسری اٹھائی تو پھر دوسرا کفارہ بنے گا، بندہ اگر مان لے کہ اتنی قسمیں اور کفارے ہیں، مگر استطاعت نہیں ہے، سب سے اچھی استطاعت یہ ہے کہ تین روزے رکھے، لیکن مستقل بیماری کی وجہ سے اس کی بھی استطاعت نہیں ہے تو پھر فاتقوا اللہ ما استطعتم پر عمل ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اگر تمام قسمیں ایک ہی گناہ کو چھوڑنے کے لیے مسلسل ایک ہی وقت میں کی گئی ہوں پھر کچھ دن بعد دوبارہ وہی قسم، پھر تیسری بار… مگر گناہ ایک ہی ہے۔
تو ایسی صورت میں صرف ایک کفارہ کافی ہے، اگرچہ قسمیں کئی بار کھائی گئیں ہوں، کیونکہ گناہ ایک ہی ہے اور مقصد بھی ایک ہے۔
لیکن اگر ہر بار قسم نئی نیت سے کی گئی ہو، یعنی سابقہ قسم توڑنے کے بعد دوبارہ سچے دل سے نئی قسم کھائی گئی ہو تو اس میں ہر قسم ٹوٹنے پر الگ کفارہ لازم آ سکتا ہے۔ مگر چونکہ علی کے معاملے میں عمر بلوغت کے قریب ایک ہی گناہ کے لیے قسمیں کھائی گئی اور مسلسل کوشش اور ناکامی کی کیفیت میں ایک کفارہ کافی ہے، جب تک قسمیں مختلف گناہوں یا الگ الگ نیتوں سے نہ کی گئی ہوں۔
اوراگر کفارے کی مقدار زیادہ ہو جائے اور انسان ادا نہ کر سکے شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ نے جو حل بتایا ہے وہ اصوب ہے۔ یعنی فاتقوا الله ما استطعتم
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ