رعایت اللہ فاروقی صاحب سوشل میڈیا پر معروف لکھاری ہیں، انہوں نے چند دن قبل ’شاندار اہل حدیث عالم’ کے عنوان سے ایک تحریر لکھی، جس پر اس اہل حدیث عالم دین بھی اپنا نقطہ نظر واضح فرمایا۔ ذیل میں دونوں تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں:

ایک شاندار اہلحدیث عالم

ایک بات جس سے ہمارے دیوبندی اور بریلوی دونوں ہی طرح کے احناف عوام واقف نہیں ہیں، اس سے آگہی بہت ضروری ہے

2010ء کی بات ہے۔ سیف اللہ خالد ہمیں جولائی جیسے سٹریل مہینے میں لاہور کی سیر کرانے لے گئے۔ دن ہمارا احرار کے دفتر میں گزرا۔ عصر میں سیف نے ہم سے کہا

“چلئے آپ کو ایک شاندار آدمی سے ملاتے ہیں”

“کون شاندار آدمی ؟”

“آپ چلئے تو سہی، پہنچ کر دیکھ لیجئے گا”

وہ ہمیں لاہور کے کسی پوش علاقے میں لے گئے جہاں اچانک ہی ہم نے خود کو ایک مدرسے کے گیٹ پر پایا۔ گاڑی سے اتر کر ہم نے کہا

“ہم اندر نہیں جائیں گے۔ پہلے بتایئے یہ کن صاحب کا مدرسہ ہے !”

سیف نے مسکراتے ہوئے کہا

“یہ اہلحدیثوں کا مدرسہ ہے، آپ آیئے تو سہی”

اہلحدیث سن کر ہمیں ٹینشن ہوگئی کہ اس گرمی میں نہ تو چائے ملے گی اور نہ ہی کولڈ ڈرنک۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ لیکن جب دفتر میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان اہلحدیث عالم کو ٹیبل کرسی پر پایا تو تسلی ہوگئی کہ کچھ نہ کچھ ملے گا ضرور۔ کیونکہ صحیح حدیث سے تو ٹیبل کرسی بھی ثابت نہیں۔ نوجوان عالم سے سلام دعاء اور رسمی جملوں کے تبادلے سے فارغ ہوئے تو انہیں کچھ کم گو سا پایا۔ ہم سمجھ گئے بات ہمیں کو شروع کرنی پڑے گی۔ سو ہم نے پوچھا

“آپ کے اس مدرسے کی خاص بات کیا ہے ؟ یہاں خصوصی توجہ کس چیز پر ہے ؟”

انہوں نے جواب دیا

“اصول فقہ پر”

ہم نے بے اختیار مسکرا کر کہا

“اچھا احناف کے خلاف تیاری پر خصوصی توجہ ہے !”

ان کی متانت برقرار رہی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا

“نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ ہم اصول فقہ اور اجتہاد کو مانتے ہیں”

یقین جانئے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا

“آپ اہلحدیث ہی ہیں ناں ؟”

وہ پہلی بار مسکرائے اور بولے

“ہمارے اہلحدیث اب ہمیں اہلحدیث نہیں مانتے مگر ہم خود کو اہلحدیث ہی سمجھتے ہیں”

ہمارا استعجاب مزید بڑھ گیا۔ ہمہ تن گوش ہو کر ان سے گزارش کی۔ پلیز تفصیل بتایئے، آپ ہمیں حیران کر رہے ہیں۔ فرمایا

“ہمارے مسلک کے بہت سے مسائل تھے جن پر ہمارے کچھ سنجیدہ نوعیت کے سوالات تھے۔ ہم نے ان کا جواب پانے کی اپنی سی کوشش بھی کی اور جب ناکام ہوئے تو اپنے مسلک کے بڑے علماء کے سامنے وہ سولات لے گئے۔ والد صاحب چونکہ مسلک کے بڑے عالم تھے اور سپریم کورٹ اپیلٹ بینچ کے جج بھی رہے تھے تو مسلک کے بڑوں تک رسائی کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن ہمارے اشکالات کوئی بھی دور نہ کرسکا۔ یوں اپنی الجھنیں دور کرنے کے لئے ایک روز ہم نے بدائع الصنائع اٹھا لی۔ اس کا مطالعہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا ہم پر ایک جہان حیرت کھلتا چلا گیا۔ اور جب ایک روز ہم اس کے مطالعے سے فارغ ہوئے تو ہمارے تمام کے تمام اشکالات ختم ہوچکے تھے۔ ساتھ ہی پوری شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہم تو علم کے ایک عظیم الشان ذخیرے سے خود کو محروم کئے بیٹھے ہیں۔ پھر ہم نے فقہ کی باقی کتب کا بھی مطالعہ شروع کردیا۔ بس پھر وہ دن آیا جب ہم نے اصول فقہ اور اجتہاد کو گلے لگا لیا اور اپنے مدرسے میں سب سے زیادہ محنت اسی پر شروع کردی”

“اور آپ فرماتے ہیں کہ آپ اب بھی اہلحدیث ہیں ؟”

اس بار ذرا مزید نکھری مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا

“ہاں ہم اہلحدیث ہی ہیں”

“اور فقہ پر عمل کرتے ہیں ؟”

“جی بالکل ! فقہ پر عمل کرتے ہیں”

“کس کی فقہ پر چلتے ہیں ؟”

“سب کی فقہ پر۔ جس مسئلے میں جس فقیہ کی بات زیادہ معقول لگے اس مسئلے میں اسی کی “تقلید” کرتے ہیں۔ کسی ایک فقہ پر نہیں چلتے”

اب کسی ایک فقہ پر چلنا یا کئی فقہاء کی تقلید کرنا بھی ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ لھذا اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی۔ چاروں فقہاء کے ہاں ایک ہی فقہ پر چلنے کا جو موقف ہے یہ درحقیقت ڈسپلنری معاملہ ہے۔ جس طرح ہم ایک وقت میں ایک ہی آئین پر چلتے ہیں اسی طرح ایک ہی فقہ پر چلنے کا کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے یہ اہلحدیث دوست تمام فقہاء کی آراء سے ایک گلدستہ بنا کر اس پر چلنا چاہتے ہیں تو اسے خلاف شرع نہیں کہا جاسکتا۔

یہ نوجوان عالم دین مولانا حسن مدنی تھے۔ اور تقلید کا یہ چلن اب اہلحدیث مسلک میں بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ چنانچہ ایک بڑی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے ایک اہلحدیث پروفیسر احناف سے یہ باقاعدہ شکوہ رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں کچھ بھی کہیں لیکن “غیر مقلد” تو نہ کہیں۔ ہماری اکثریت اب غیر مقلد نہیں رہی۔

اب سوال یہ آجاتا ہے کہ ان میں سے مقلد اور غیر مقلد کا پتہ کیسے چلے گا ؟ ہمیں انہوں نے بتایا نہیں ہے۔ لیکن نظر تو ہم ذرا گہری رکھتے ہیں سو اپنے تجربے سے بتا رہے ہیں کہ مقلد اور غیر مقلد کا پتہ ڈاڑھی کے سائز سے چلتا ہے۔ جس اہلحدیث کو معتدل ڈاڑھی میں پائیں، سمجھ جائیں کہ یہ مقلد ہے 🙂

نوٹ: حسن مدنی ایک شاندار علمی ماہنامے “محدث” کے مدیر بھی ہیں۔ ہمارے احناف علماء کو چاہئے اس ماہنامے کو بھی شامل مطالعہ فرمائیں۔

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی صاحب کی تحریر پر حسن مدنی صاحب کا تبصرہ

محترم رعایت اللہ فاروقی صحافی آدمی ہیں اور اپنی مخصوص ذہنی اپچ کے ساتھ ہی، عامیانہ انداز میں ان اصولی مسائل پر انہوں نے لکھا، جس کی تفصیلات سے وہ زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔ ان کی یہ تحریر کل پرسوں دیکھی تو اس میں سمجھ نہیں آتا کہ کس بات کی وضاحت کروں؟ مجھے نہ تو ان کے موقف سے اتفاق ہے اور نہ رپورٹنگ سے۔

یہ بات بجا ہے کہ قرآن وسنت کی بنا پر ملنے والی فقہ اسلامی ایک انتہائی مبارک علم اور فقیہ پر اللہ کا انعام ہے۔ یہ فقہ الحدیث، محدثین کا امتیاز ہے اور امام شافعی رح سے لے کر، شاہ ولی اللہ دہلوی رح تک نامور ائمہ اسی کے داعی رہے ہیں۔

قرآن وسنت کے صحیح فہم کے لئے اصول فقہ کو سیکھنا سکھانا بھی انتہائی مبارک کام ہے اور اس علم میں ائمہ اسلاف کی متعدد معیاری کتب موجود ہیں۔

ایسی فقہ اور اصول فقہ سے گریز بہر طور ضروری ہے جو شارع کی منشا سے دور کرکے، دوسروں کی تقلید کو رواج دے۔

فقہائے کرام کی کتب میں بڑے مفید استدلال ہوتے ہیں، اور حنفی فقہی مجموعے بھی ان مفید استدلالات میں شامل ہیں، یہ بھی بجا کہ بہت سے اہم فقہی نکات کی وضاحت ہمیں حنفی فقہی کتب میں ملتی ہے۔

دلیل کے ساتھ کسی فقہی موقف کو ماننا تقلید سے خارج ہے۔

غیر مقلد کے بارے میں فاروقی صاحب کے عامیانہ تبصرے کی وضاحت کے لئے مولانا اشرف علی تھانوی کی رد تقلید پر یہ تحریر ہی کافی ہے:

’’بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا و مصیب و جوباً و مفروض الاطاعہ تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قولِ امام کے ہو اور مستند قول امام کا بہ جز قیاس امر دیگر نہ ہو، پھر بھی بہت سی علل و خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کریں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالیٰ {اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} [التوبۃ: ۱۳] اور خلاف وصیت ائمہ مرحومین کے ہے۔‘‘
(امداد الفتاویٰ: ۵/ ۲۹۷، مکتبہ دار العلوم کراچی، طبع جدید ۲۰۰۴ء)

آپ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ
’’تقلید شخصی کہ عوام میں شائع ہو رہی ہے اور وہ اس کو علماً اور عملاً اس قدر ضروری سمجھتے ہیں کہ تارکِ تقلید سے، گو کہ اس کے تمام عقائد موافق کتاب و سنت کے ہوں، اس قدر بغض و نفرت رکھتے ہیں کہ تارکین صلاۃ، فساق و فجار سے بھی نہیں رکھتے اور خواص کا عمل و فتوی وجوب اس کا موید ہے۔‘‘
(تذکرۃ الرشید: ۱/ ۱۳۱، ادارہ اسلامیات، لاہور ۱۹۸۶ء)

الغرض فاروقی صاحب کی اس پوری تحریر سے مجھے بالکل اتفاق نہیں ہے اور یہ فکری مغالطہ آرائی کو رواج دیتی ہے۔ اس کو نشر کرنا مناسب نہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی اپنے ایک مکتوب میں، جو انھوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم کے نام تحریر کیا، لکھتے ہیں:
’’اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے (تو) ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا، بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بہ جز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرتِ مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قولِ مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں۔ بعض سنن مختلف فیہا مثلاً آمین بالجہر وغیرہ پر حرب و ضرب کی نوبت آجاتی ہے۔ اور قرونِ ثلاثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کیفما اتفق جس سے چاہا مسئلہ دریافت کر لیا، اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہبِ خامس مستحدث کرنا جائز نہیں، یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے، مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اہلِ ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں، وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی، مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔‘‘
(تذکرۃ الرشید: ۱/ ۱۳۱، ادارہ اسلامیات، لاہور ۱۹۸۶ء)

تقلید کوئی اعزاز نہیں، یہ کفر تک بھی پہنچا دیتی ہے، امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں کہ
’’وأشھد ﷲ باﷲ أنہ کفر باﷲ أن یعتقد في رجل من الأمۃ ممن یخطیٔ ویصیب أن اﷲ کتب عليّ اتباعہ حتْماً، وأن الواجب عليّ ھو الذي یوجبہ ھذا الرجل عليّ، ولکن الشریعۃ الحقۃ قد ثبتت قبل ھذا الرجل بزمان.’’ (التفھیمات الإلٰھیۃ: ۱/ ۲۷۹، مطبوعہ: ۱۹۷۰ء)
’’ میں اﷲ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ امت کے کسی آدمی کے بارے میں، جس کی رائے میں خطا اور صواب دونوں باتوں کا امکان ہے، یہ عقیدہ رکھنا کہ اﷲ نے اس کی پیروی کرنے کو میرے لیے لازمی کر دیا ہے اور مجھ پر وہ چیز واجب ہے جو یہ شخص مجھ پر واجب کر دے، کفر ہے۔ شریعت حقہ تو اس آدمی (امام) سے بہت پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے جسے علماء نے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

ڈاکٹر حسن مدنی