اُمِ سلیم بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا اور ان کی ایک روحانی بیٹی ام ضیاء الرحمن حفظہا اللہ( زوجہ شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ)
سیدنا انسؓ کی عظیم والدہ اپنی کنیت اُمّ ِ سلیم سے معروف ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کو صُورت و سیرت کے ساتھ بہت سی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ وہ صبر و استقلال کے ساتھ مضبوط عزائم اور قوّتِ ارادی کی مالک تھیں۔ ان کا دوسرا نکاح زید بن سہل رضی اللہ عنہ (جو ابوطلحہ کے نام سے مشہور تھے) سے ہوا۔
انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ’’ میری والدہ اُمّ سلیمؓ کے ہاں ابو طلحہؓ سے ایک بیٹا ہوا، جس سے ہم سب بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دن وہ بچّہ فوت ہوگیا۔ والدہ کو بچّے سے اُن کی انسیت کا اندازہ تھا۔ لہٰذا، اُنہوں نے بیٹے کے جسدِ خاکی کو غسل وغیرہ دے کر تیار کیا اور کمرے میں لِٹا کر چادر ڈال دی۔ خود بھی بنائو سنگھار کرکے تیار ہو گئیں۔رات کو جب ابوطلحہؓ گھر واپس لَوٹے، تو اُنہوں نے آتے ہی بچّے کے بارے میں پوچھا، جواب ملا کہ’’ آرام و سکون میں ہے۔‘‘ اِس پر وہ مطمئن ہوگئے۔ کھانا وغیرہ کھا کر فارغ ہوئے اور بستر پر سونے لیٹے، تو صابر و شاکر اہلیہ نے ایک عجیب سا سوال کردیا’’ بولیں، اگر کوئی آپ کے پاس اپنی امانت رکھوائے اور کچھ دن بعد واپس مانگے، تو کیا کریں گے؟‘‘ ابو طلحہؓ نے جواب دیا’’ اُسے فوراً واپس کردینا چاہیے۔‘‘ بولیں’’ اللہ نے ہمیں جو بچّہ دیا تھا، وہ ہم سے واپس لے لیا ہے۔‘‘ ابوطلحہؓ نے بچّے کی تدفین کی اور خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہو کر اکلوتے بیٹے کی وفات کا بتایا۔ رسول اللہﷺ نے دُعا فرمائی کہ’’ اللہ بہت جلد تمھیں اولاد عطا فرمائے گا۔‘‘ چناں چہ عبداللہ پیدا ہوئے، تو والد اُنھیں حضورﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ آپؐ نے عجوہ کھجور چبا کر بچّے کے منہ میں ڈالی، تو وہ اُسے چوسنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا’’ دیکھو! انصار کو کھجور سے کیسی محبّت ہے‘‘ (صحیح مسلم 6322)۔
یہ ہے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے صبر و تحمل کی کہانی جو امام مسلم رحمہ اللہ کی زبانی آپ نے سن لی اب آئیے میں آپ کو ان کی ایک روحانی بیٹی کی کہانی سناتا ہوں۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی اس روحانی بیٹی کے مابین زمانی و مکانی دونوں ہی فاصلے تھے ام سلیم رضی اللہ عنہا ساڑھے چودہ سو سال قبل اور ان کی روحانی بیٹی تو آج بھی بقید حیات ہیں حفظہا اللہ ۔
1997 میں ایک ایکسڈینٹ میں شوہر ، دو لاڈلے چھوٹے بیٹے، ماں جیسی خالہ اور بہت ہی پیارا بھانجا سب ایک ہی وقت میں اللہ اللہ کر گئے۔
وہاں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بیٹے کو غسل دے کر چادر اڑا کر پوری رات شوہر کے ساتھ گزاری اور یہاں ان کی روحانی بیٹی کے سامنے محبوب شوہر ، دو بیٹے ، بھانجے اور خالہ کے جسد خاکی سامنے تھے اور لوگوں کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں۔
واللہ العظیم مجھے اس بات کی قطعا سمجھ نہیں آئی تھی کہ میرے محبوب شیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ اتنی کم عمر میں اتنے بڑے بڑے عظیم کام کیسے کر گئے جس دن یہ واقعہ سنا تھا اس دن سمجھ آئی تھی کہ ہمارے محبوب وجود مزکی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی دور میں دعوت دین کے حوالے سے جو بھی کامیابیاں تھیں ان میں ان کی محبوبہ بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا کردار تھا تو میں یہ کہتا ہوں کہ پروفیسر محمد ظفر اللہ کی کامیابیوں کے پیچھے ام سلیم رضی اللہ عنہا کی اس روحانی بیٹی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

کبھی اس امر کی سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کے صاحبزادے ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ کی گفتگو میں جو تقوی اور للہیت اور معاملہ فہمی نظر آتی ہے اس کا سبب کیا ہے تو معلوم ہوا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی روحانی بیٹی کی تربیت ایسی ہی باکمال تھی کہ بیٹے کو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ادارت اس لیے نہیں ملی کہ وہ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کے بیٹے ہیں بلکہ اس لیے کہ ان کی تربیت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی اس روحانی بیٹی نے کی تھی جامعہ ابی بکر کو ایک عام استاد کی حیثیت سے جوائن کیا اور مختلف ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اللہ نے اتنی بڑی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈال دی ہے میں ان کے لیے خصوصی دعا کرتا ہوں۔
تو بات بہت دور نکل گئی میں بات کر رہا تھا کہ
عورت کا صبر و تحمل بہت ہی کمال کا ہوتا ہے
ابراہیم علیہ السلام بیوی اور شیر خوار بچے کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئے تھے کیا یہ صرف ابراھیم علیہ السلام کا امتحان تھا ھاجر علہیا السلام کا امتحان نہ تھا۔ صبر و تحمل کا امتحان ۔
تو ھاجر علیہا السلام سے جس سفر کا آغاز ہوا تھا اس کی ایک کڑی ام سلیم رضی اللہ عنہا کی صورت میں تھی بہت ساری کڑیاں درمیان میں آتی گئیں اور اسی کی ایک کڑی پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی اھلیہ اور شیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ کی والدہ محترمہ کی صورت میں ہے۔ اس طرح کے خوبصورت و خوب سیرت وجود آپ لوگوں کو بھی اپنے ارد گرد مل جائیں گے ، ایسی ماوں کے حالات جمع کیجیے نسل نو کو بہت ضرورت ہے۔
ضیاء الرحمن شہید رحمہ اللہ کی وفات پر ان کی اہلیہ اور والدہ کا اولین پیغام یہی ملا کہ جامعہ کے اساتذہ و علماء جو کہیں گے وہی ہو گا۔ میں اپنی اس روحانی ماں کے قصے لکھنا شروع کروں تو شاید جگہ کم پڑ جائے لیکن کل حافظ عبیداللہ جمعہ کے خطبہ میں بیان کر رہے تھے کہ امی جی نے آج کہا ہے کہ بیٹے صدمہ بہت بڑا ہے بس یہ واحد جملہ تھا جو ان کے منہ سے ادا ہوا باقی وہ اپنی تینوں بیٹیوں پوتیوں کو ہی سنبھال رہی ہیں ان سب کو حوصلہ دے رہی ہیں تسلی دے رہی ہیں جبکہ ان کی عمر تقریبا اسی سال کے قریب ہو چکی ہے۔
میری روحانی ماں آپ کو میرے ہزاروں سلام اور مسلسل دعائیں ، جامعہ کے ہزاروں طلباء آپ کے بیٹے آپ کے لیے دعاگو ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

فیض الابرار صدیقی