سوال (6310)

حدثنا محمد بن أحمد بن أبي خيثمة، ثنا زكريا بن يحيى المدائني، ثنا شبابة بن سوار، ثنا ورقاء بن عمر، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينبغي لمؤمن أن يذل نفسه»، قيل: يا رسول الله، وكيف يذل نفسه؟ قال: «أن يتعرض من البلاء لما لا يطيق» [المعجم الكبير للطبراني: 13507]

اس حدیث کو زبیر علی زئی رحمه الله ضعیف جبکہ علامہ البانی رحمه الله صحیح کہتے ہیں…؟

جواب

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے، اس کے ضعف شواہد بھی ذکر کیے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے، اس کو حسن قرار دیا ہے، بہرحال روایت قابل قبول ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ روایت جمیع اسانید کے ساتھ ضعیف ہے۔ طبرانی کی یہ سند بھی علت سے خالی ہے۔
پھر یہی سند طبرانی اوسط میں ہے اور وہاں ورقاء سے راوی عبد الکریم ہے
ملاحظہ کریں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﻴﺜﻤﺔ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﻀﺮﻳﺮ،: ﻧﺎ ﺷﺒﺎﺑﺔ، ﻋﻦ ﻭﺭﻗﺎء ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻜﺮﻳﻢ، ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﻳﺨﻄﺐ، ﻓﺬﻛﺮ ﺷﻴﺌﺎ ﺃﻧﻜﺮﺗﻪ، ﻓﺬﻛﺮﺕ ﻣﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻠﻤﺆﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﺬﻝ ﻧﻔﺴﻪ ﻗﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻛﻴﻒ ﻳﺬﻝ ﻧﻔﺴﻪ؟ ﻗﺎﻝ: «ﻳﺘﻌﺮﺽ ﻣﻦ اﻟﺒﻼء ﻟﻤﺎ ﻻ ﻳﻄﻴﻖ طبرانی اوسط:(5357)

اور أمثال الحدیث لأبى الشيخ:(152) کی سند بھی ﻋﻦ ﻭﺭﻗﺎء، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻜﺮﻳﻢ عن مجاھد ہے
سند میں زکریا بن یحیی بن أیوب المدائنی راوی ہے جسے تین سے زیادہ ثقات حفاظ نے روایت کیا اور حافظ ذہبی نے کہا: محله الصدق، تاريخ الإسلام للذهبي :19/ 143
مگر طبرانی اوسط وغیرہ میں ورقا عن عبد الکریم ہے اور مجاھد سے دو عبد الکریم روایت کرتے ہیں ایک الجزری،دوسرا ابن أبی المخارق ۔
اب یہاں راجح ابن أبی نجیح ہی ہے کیونکہ ورقاء کے شیوخ میں ابن أبی نجیح تو ہے مگر عبد الکریم الجزری یا دوسرا عبد الکریم نہیں ہے اسی طرح عبد الکریم الجزری اور عبد الکریم بن أبی المخارق دونوں کے تلامذہ میں ورقا کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
تو بظاہر یہ سند جید نظر آتی ہے مگر زکریا بن یحیی المدائنی
کا تفرد ہے اور اس کے ضبط واتقان کا کوئی علم نہیں البتہ یہ حدیث کسی شرعی حکم وتعلیم کے مخالف بھی نہیں ہے سو اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ