“صاحبزادہ قیم الہٰی ظہیر حفظہ اللّٰہ کی نذر”
(مدیر:جامعہ علامہ احسان الہی ظہیر شہید)
دین اسلام کی خدمت ایک عظیم سعادت ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتی۔ یہ کام محض زبان و بیان سے نہیں، بلکہ علم، اخلاص، استقامت، اور امت کے لیے دردِ دل کا تقاضا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں جب دینی شعور بسا اوقات جذبات سے مغلوب، اور علمی معیار تشہیر کے دباؤ تلے دبنے لگا ہے، ایسے میں کچھ شخصیات ایسی اُبھرتی ہیں جو سچ بولنے کا حوصلہ، دین کی بنیاد پر بات کہنے کی جرأت، اور علمی خلوص کے ساتھ اصلاحِ امت کی فکر رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں نام صاحبزادہ قیم الہٰی ظہیر حفظہ اللہ کا ہے۔
آپ نہ صرف علم و فضل کے وارث ہیں بلکہ قائدِ ملت اسلامیہ حضرتِ علامہ حافظ ابتسام الہٰی ظہیر حفظہ اللّٰہ کے لختِ جگر اور شہیدِ عالمِ اسلام حضرت علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید رحمہ اللّٰہ کے پوتے ہیں۔ لیکن قیم بھائی کی شخصیت صرف اپنے خاندانی پس منظر کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ انہوں نے ذاتی محنت، مطالعے، فکری استقلال، اور دینی ذوق سے اپنا ایک الگ علمی تشخص قائم کیا ہے۔
صاحبزادہ قیم الہٰی ظہیر حفظہ اللہ کا علمی اسلوب نہایت احسن، مدلل اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ وہ جذبات کو علم کی لگام میں رکھتے ہیں اور دلیل کو ہی اصل قوت سمجھتے ہیں۔ ان کے بیانات سننے والا بخوبی محسوس کرتا ہے کہ وہ محض خطابت نہیں کر رہے بلکہ ایک سوچ، ایک اصلاحی پیغام اور ایک علمی مؤقف کو بیان کر رہے ہیں۔
بعض اوقات ان کے الفاظ اس قدر پراثر اور سچائی سے لبریز ہوتے ہیں کہ دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ وہ سامع کو غفلت سے بیدار کرنے، عقیدے و عمل میں اخلاص لانے، اور کتاب و سنت کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں۔
اگرچہ ان کے بعض آراء سے علمی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ اہلِ علم کے درمیان ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، مگر ان کی خلوص بھری کاوشوں، اسلام کی دعوت کے لیے ان کی سرگرمی، اور امت کے لیے ان کے دردمندانہ انداز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علمی دنیا میں اختلاف، اگر عدل، حلم اور نرمی کے ساتھ ہو تو وہ ترقی اور فہم کا ذریعہ بنتا ہے۔
صاحبزادہ قیم الہٰی ظہیر نوجوانوں کو دینی فکر، عقیدے کی پختگی، اور دعوتِ دین کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں جو صداقت ہے، ان کے انداز میں جو سوز ہے، وہ سننے والوں کے دلوں میں ایک اضطراب، ایک تڑپ پیدا کرتا ہے۔ ان کی للکار میں بے ساختہ علامہ شہید یاد آجاتے ہیں۔
بعض شخصیات اپنے علم سے متاثر کرتی ہیں، کچھ اپنی تقریر سے، اور کچھ اپنے مقام و مرتبے سے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی سادگی، انکساری اور تواضع سے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ قیم بھائی انہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ہیں، جو بلاشبہ سادگی کی عظیم مثال ہیں۔ یہ فقط سنی سنائی باتوں پر ہی محدود نہیں بلکہ میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ ہے، میں ان کی شخصیت سے چھ سال سے واقف ہوں اور مرکز میں بارہا مرتبہ ملاقاتیں میسر آئیں لیکن انتہائی سادہ،ملنسار اور خوش مزاج پایا جس کے شواہد علاویں ازیں مرکز کے جملہ اساتذہ کرام و طلباء عظام ہیں،
الغرض! مرکز میں بارہا مرتبہ ملاقات کے اختتام پر قیم بھائی کے جوتوں اور بیگ کو اٹھانے پر اصرار کیا لیکن باوجود اصرار کے ایک مرتبہ بھی جوتا و بیگ نہیں پکڑنے دیا بلکہ اس عمل پر غصے کا اظہار دیکھنے کو ملا۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحبزادہ قیم الہٰی ظہیر حفظہ اللہ کی عمر میں برکت عطا فرمائے، ان کے علم میں اضافہ کرے، ان کے اخلاص کو مزید مضبوط فرمائے، اور ان کی دعوت کو امت کے لیے نفع بخش بنائے۔
یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء
Qayyim Ibtisam
یہ بھی پڑھیں:سیدنا علیؓ کو تمام انبیاء کرام سے افضل قرار دینا