سوال (119)
شیخ صاحب اس روایت کی وضاحت فرمادیں؟ جزاک اللہ خیرا۔
’ایک بار جبرئیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرئیل کچھ پریشان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں ، جبرئیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ دیکھ آیا ہوں ، اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں ۔ نبی کریم نے فرمایا ہے کہ جبرئیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں ۔ ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا ۔اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے ۔اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے ۔ چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے ۔ تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں گے ۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا ہے ۔
جبرئیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا ؟ جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا ہے۔اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کے امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا، تو آپ بے حد غمگین ہوئے ہیں اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کی تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے ، مسجد سے حجرے جاتے ہیں ، گھر بھی تشریف لے کر نہیں جا رہے ہیں ۔ جب تیسرا دن ہوا یے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آئے ، دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جائے ، آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا حضرت عمر نے سلمان فارسی کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا ۔ سیدنا سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنے اعظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نہیں جانا چاہیے ، بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاہیے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئی
” ابا جان! السلام وعلیکم”
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا ۔
ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں۔
نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معاف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے ہیں اور رونا شروع کیا یااللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا “وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى”
اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے۔
جواب
چند روایات کو ملا کر اس میں کچھ اضافے کردیے ہیں ، اس روایت میں کچھ الفاظ مل سکتے ہیں ، مگر یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پوری امت جنت میں جا نہیں سکتی ہے ، کچھ وقتی طور پہ جہنم میں جائیں گے ، اس کو سفارش کے ساتھ جہنم سے نکالا جائے گا تو اس کے بعد بھی کچھ رہ جائیں گے ، اسی سے اس روایت کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے ، ان الفاظ کے ساتھ من و عن کسی بھی صحیح روایت میں موجود نہیں ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ