سوال (3236)
غلطیاں اس طرح کی ہوتی ہیں کہ ان کی اصلاح اکیلے میں کرنی چاہیے یہ کوئی بس اچھی بات ہے یا کوئی حدیث بھی ہے، اگر ہے تو برائے مہربانی حوالہ بھی دے دیں۔
جواب
سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ کہ
“الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ يَكُفُّ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِهِ” [سنن ابي داؤد : 4918]
«مومن مومن کا آئینہ ہے، اور مومن مومن کا بھائی ہے، وہ اس کی جائیداد کی نگرانی کرتا اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی حفاظت کرتا ہے»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پیارے بھائی پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ اسلام میں خالی ایک حکم کو دیکھ کر اسکا اطلاق ہر جگہ نہیں کیا جاتا بلکہ تمام احکامات کو سامنے رکھ کر ہی فائنل فیصلہ کیا جاتا ہے۔ پس شریعت میں کسی کی پردہ پوشی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے البتہ یہ پردہ پوشی ہمیشہ نہیں کی جاتی بلکہ یہ پردہ پوشی کا حکم دوسروں کے حقوق سلب ہونے کے ساتھ مقید ہے۔ یعنی اگر کسی کا کوئی حق سلب ہو رہا ہے تو وہاں پردہ پوشی نہیں کی جائے گی کیونکہ کسی کا حق دلوانا اور حق کی گواہی دینا یہ پہلے ہے مثلا اگر کوئی کسی کی چوری کر رہا ہے۔ تو جسکی چوری ہو رہی ہے اسکو بتانا فرض ہے تاکہ وہ اپنا بچاو کر سکے وغیرہ وغیرہ
البتہ جہاں کسی کے حق سلب ہونے کا مسئلہ نہ ہو تو پھر ہر مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنا لازم ہے اس پہ کچھ روایات نیچے دیتا ہوں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ اللهُ قَالَ: لَا يَسْتُرُ عَبْدٌ عبْدًا فِي الدُّنيا، إِلَّا ستره الله يوم القيامة. (أخرجه مسلم) [صحیح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب بشارة من ستر الله تعالى عليه في الدنيا بأن يستر عليه]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی شخص دنیا میں کسی بندہ کا عیب چھپا دے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کا عیب چھپا دے گا۔
وَعَن عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخبرهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قال: المسلم أخو المسلم لا يَظْلِمُهُ وَلا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبَاتِ يوم القيامةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَومَ القيامة ، (أخرجه البخاري ومسلم). [صحیح بخاری: کتاب المظالم، باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه، صحيح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، تو اسے چاہئے کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اسے ہلاکت میں ڈالے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مشغول ہے اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری کرنے میں ہے اور جس نے کسی مسلمان سے کوئی تکلیف دور کر دی تو اللہ تعالی قیامت کے دن کی تکالیف سے اس کی ایک تکلیف دور کر دے گا اور جس نے کسی مسلمان پر پردہ ڈالا یعنی عیب چھپایا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس پر وہ ڈال دے گا۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ المنبر فَنَادَى بِصُوتٍ رَفِيعِ قَالَ: يَامَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الإيمان إلى قلبه، لا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلا تَعِيرُوهُمْ وَلَا تَتَّبَعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ من تتبع عورة أخيه المسلم تشعِ اللَّهُ عَورَتَهُ، وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَورَتَهُ يَفْصَحُهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحلِهِ (أخرجه الترمذي) [سنن ترمذي: أبواب البر والصلة عن رسول الله، باب ما جاء في تعليم المؤمن هذا حديث غريب و حسنه الألباني في المشكاة : 5044]
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارا اے دو لوگو جو اپنی زبان سے اسلام لائے ہو اور ابھی ایمان جن کے دلوں تک نہیں پہنچا مسلمانوں کو ایذا مت دو اور انہیں عارمت دلاؤ اور ان کے عیبوں کو مت ڈھونڈھو اس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا عیب ڈھونڈھے گا اللہ تعالی اس کے عیب کو ڈھونڈھے گا اور جس کے عیب کو اللہ ڈھونڈھے گا اس کو ذلیل کر دے گا اگر چہ دو اپنے مکان میں ہو۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ