سوال

کفار کے ممالک میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جانا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟ جب کہ صورتحال یہ ہو کہ مسلمان ممالک میں جدید طبی سہولیات مفقود ہوں جس سے آدمی اچھا ڈاکٹر بن سکے۔
تعلیم کے دوران وہاں سکالرشپ بھی دیا جاتا ہو(کفار سے حاصل کر دہ پیسے استعمال کرنا جائز ہے؟) ان ممالک میں بہر حال مسلمان سوسائٹیز موجود ہیں جہاں اچھے خاصے مسلمان رہتے ہیں اور آپ کے ساتھ جانے والے ایسے دوست بھی ہوں جو دین میں ایک دوسرے کو مضبوط کرنے والے ہوں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی بھی مسلمان کے لیے کسی ایسے ملک اور معاشرے میں جاکر مستقل اقامت  اختیارکرنا جہاں غیر مسلمین کی اکثریت ہو اور وہاں مسلمان کے لیے حلال خوراک، ادائیگی عبادات کے حوالے سے شدید مشکلات ہوں، جائز نہیں۔ اس کا ایمان خطرے میں رہےگا۔ اور اس کی اولاد یقینا نیم کافر ہو جائے گی اور اس سے اگلی نسل مسلمان نہیں رہ سکے گی اور اس کا سارا وبال اس پہلے شخص پر ہوگا جس نے اپنا ملک چھوڑ کر غیر مسلم معاشرے میں اقامت اختیار کی تھی۔

مشاہدہ بتاتا ہے کہ جنہوں نے غیر مسلم ممالک مستقل رہائشیں اختیار کیں، ان میں سے اکثریت کی  بعد والی نسلیں اسلام سے بالکل برگشتہ ہو گئیں۔

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ”. [سنن الترمذی: 1604]

’’میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے‘‘۔

ہاں البتہ کچھ صورتوں میں بلاد کفر کی طرف سفر کرنا جائز ہے، مثلا:

1۔ اعلی تعلیم ، علاج معالجے  وغیرہ کے لیے کسی  کافر ملک میں جانے کی گنجائش ہے، خصوصا جب اپنے ملک میں وہ  سہولیات میسر نہ ہوں۔

2۔ خاص طور پر ایسے کافر ممالک جہاں مسلمان سوسائٹیز بھی ہوں اور مسلمانوں کا وہاں کافی رہن سہن ہو اور جانے والے کی اٹھک بیٹھک عموما  مسلمان لوگوں کے ساتھ ہو۔

3۔تیسرا یہ کہ یہ سفر عارضی ہو،  مستقل رہائش کی نیت اور ارادہ نہ ہو۔

ان حالات میں تعلیم، علاج اور بزنس وغیرہ ضروری کاموں کے لیے غیر مسلم ممالک کی طرف سفر کرنے کا جواز ہے۔

اگر کسی کی نیت ہو کہ ان ممالک میں تعلیم یا بزنس وغیرہ کے لیے جائیں اور وہاں کی نیشنیلٹی لیکر وہاں مستقل رہائش اختیار کرلیں گے، یہ کئی ایک مفاسد کی وجہ سے درست اور جائز نہیں ہے، جیسا کہ بعض کا  اوپر ذکر کیا گیا۔

مزید یہ کہ مسلمان کو دیگر ادیان کے اثرات اور اہل ادیان کے منفی اخلاق و کردار اور عقائد و نظریات سے بچانا بھی مطلوب و مقصود ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«لَا ‌يُتْرَكُ ‌بِجَزِيرَةِ ‌الْعَرَبِ دِينَانِ». [مسند أحمد 43/ 371   برقم 26352ط الرسالة]

’جزیرہ عرب میں  کسی دوسرے دین کی گنجائش نہیں ہے‘۔

تاکہ کوئی کمزور ایمان کسی باطل مذہب کے اثرات سے متاثر نہ ہو۔

لادینیت، الحاد اور تہذیب و تمدن سے متعلق کتنے ہی فتنے ہیں، جو ایسے لوگوں کے واسطے سے ہی اسلامی معاشروں میں عام ہوئے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صورتِ مسؤلہ کی طرح بعض خاص حالات میں عارضی رہائش کی گنجائش موجود ہے،  اور اس دوران وہاں دی جانے والی سہولیات ، اسکالرشپس، وظائف کا  حصول بھی جائز ہے، لیکن مستقل رہائش  اختیار  کرنا کسی صورت جائز نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ