سوال (5826)

ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﺇﺫا ﺃﻭﻯ ﺇﻟﻰ ﻓﺮاﺷﻪ: اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻛﻔﺎﻧﻲ ﻭﺁﻭاﻧﻲ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﺃﻃﻌﻤﻨﻲ ﻭﺳﻘﺎﻧﻲ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻣﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﺄﻓﻀﻞ، اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﺑﻌﺰﺗﻚ ﺃﻥ ﺗﻨﺠﻴﻨﻲ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، ﻓﻘﺪ ﺣﻤﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﺠﻤﻴﻊ ﻣﺤﺎﻣﺪ اﻟﺨﻠﻖ ﻛﻠﻬﻢ،

کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

ان الفاظ سے ثابت ہے: المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2001

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ قَالَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ:

جس نے بستر پر آرام کرتے وقت یہ دعا پڑھی اس نے(تمام مخلوقات) کے حمدیہ کلام کے برابر حمد بیان کی۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَفَانِي وَآوَانِي، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي وَسَقَانِي، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي مَنَّ عَلَيَّ فَأَفْضَلَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعِزَّتِكَ أَنْ تُنَجِّيَنِي مِنَ النَّارِ، (المستدرك على الصحيحين للحاكم – ط العلمية# ١/‏٧٣٠ )
سندہ حسن۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

بارك الله فيكم: یہ تساہل پر مبنی حکم ہے۔ اچھی طرح تحقیق کرنی چاہیے ہے۔
آپ کی مطلوبہ روایت ضعیف ہے اس پر کچھ توضیح وتحقیق پیش خدمت ہے۔
ملاحظہ کریں:

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ اﻟﻔﻘﻴﻪ، ﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻫﻴﺮ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﺛﻨﺎ ﺧﻠﻒ ﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ، ﺛﻨﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺰﻧﻲ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﺇﺫا ﺃﻭﻯ ﺇﻟﻰ ﻓﺮاﺷﻪ: اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻛﻔﺎﻧﻲ ﻭﺁﻭاﻧﻲ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﺃﻃﻌﻤﻨﻲ ﻭﺳﻘﺎﻧﻲ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻣﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﺄﻓﻀﻞ، اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﺑﻌﺰﺗﻚ ﺃﻥ ﺗﻨﺠﻴﻨﻲ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، ﻓﻘﺪ ﺣﻤﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﺠﻤﻴﻊ ﻣﺤﺎﻣﺪ اﻟﺨﻠﻖ ﻛﻠﻬﻢ، مستدرک حاکم :(2001)،شعب الإيمان للبيهقى:(4072)

امام حاکم نے کہا: ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ اﻹﺳﻨﺎﺩ أیضا
حافظ مقدسی نے کہا

ﺧﻠﻒ ﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ ﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻓﻴﻪ ﺟﺮﺣﺎ ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻯ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺤﻪ ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺃﻭﻯ ﺇﻟﻰ ﻓﺮاﺷﻪ ﻗﺎﻝ اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﺃﻃﻌﻤﻨﺎ ﻭﺳﻘﺎﻧﺎ ﻭﺁﻭاﻧﺎ ﻓﻜﻢ ﻣﻤﻦ ﻻ ﻛﺎﻓﻲ ﻟﻪ ﻭﻻ ﻣﺆﻭﻱ ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺬﻱ ﺭﻭﻳﻨﺎﻩ ﺯﻳﺎﺩﺓ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻓﻲ ﻣﺴﻠﻢ، الأحاديث المختارة:4/ 402

خلف بن المنذر کی کسی ناقد امام نے صریح توثیق نہیں کی ہے بلکہ امام بخاری ،امام ابن أبی حاتم الرازی نے اسے جرح و تعدیل کے بغیر ذکر کیا ہے۔
امام ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے اور یہ معلوم ہے کہ امام ابن حبان مجاہیل کے بارے میں تساہل سے کام لیتے تھے یا اسے بطور معرفت نقل کر دیتے تھے اور حاکم کا اس کی روایت کی تصحیح کرنا بھی تساہل ہے اور امام حاکم کے المستدرک میں تساہل عام اور معروف ہیں حتی کہ وہ سخت ضعیف روای کی روایت کی تصحیح کر گزرتے تھے اس لئے یہ یہاں کچھ فائدہ نہیں دے گی اس روای کی کوئی اور روایت نہیں ہے اور اس پر ائمہ علل ونقاد کا کچھ مثبت موقف بھی موجود نہیں ہے۔
اور ائمہ محدثین راوی پر کلام اس کی مرویات وقرائن کی بنیاد پر ہی کرتے تھے لہذا یہ راوی مجھول ہے اور اس کی بیان کردہ روایت ضعیف و غیر محفوظ اور صحیح حدیث کے معارض ہے جسے ہم آخر پر ذکر کریں گے۔
اس روایت کو شیخ مصطفی العدوی نے بھی ضعیف کہا ہے( الشیخ مصطفی العدوی یوٹیوب چینل)
اس کے قریب متن سے روایت ملاحظہ کریں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺴﻴﻦ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﺣﺪﺛﻨﻲ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﺇﺫا ﺗﺒﻮﺃ ﻣﻀﺠﻌﻪ: اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻛﻔﺎﻧﻲ ﻭﺁﻭاﻧﻲ، ﻭﺃﻃﻌﻤﻨﻲ ﻭﺳﻘﺎﻧﻲ، ﻭاﻟﺬﻱ ﻣﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﺃﻓﻀﻞ، ﻭاﻟﺬﻱ ﺃﻋﻄﺎﻧﻲ ﻓﺄﺟﺰﻝ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﺣﺎﻝ، اﻟﻠﻬﻢ ﺭﺏ ﻛﻞ ﺷﻲء، ﻭﻣﻠﻚ ﻛﻞ ﺷﻲء، ﻭﺇﻟﻪ ﻛﻞ ﺷﻲء، ﻭﻟﻚ ﻛﻞ ﺷﻲء ﺃﻋﻮﺫ ﺑﻚ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ،
مسند أحمد بن حنبل:(5983)

اور دیکھیئے سنن أبو داود:

ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﻘﺎﻝ ﻋﻨﺪاﻟﻨﻮﻡ(5058)،السنن الکبری للنسائی:(7647 ، 10566)،مسند أبی یعلیٰ:(5758)،صحیح ابن حبان:(5538) ﺫﻛﺮ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻟﻠﻤﺮء ﺃﻥ ﻳﺤﻤﺪ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﺰ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻛﻔﺎﻩ ﻭﺁﻭاﻩ ﻋﻨﺪ ﺇﺭاﺩﺗﻪ اﻟﻨﻮﻡ،عمل اليوم والليلة لابن السني:(723)،التوحيد لابن منده:(197)، الدعوات الكبير للبيهقى:(398)

اس روایت کی سند بظاہر صحیح ہے مگر یہ روایت اپنے اندر علت رکھتی ہے۔
مكارم الأخلاق للخرائطي:(964) میں اس روایت کے بعد ہے۔

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺨﺮاﺋﻄﻲ:” ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﻌﻨﺰﻱ: ﻛﻨﺖ ﺣﺪﺛﺖ ﺑﻪ ﻣﺮﺓ، ﻓﻘﻠﺖ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺫاﻙ ﺧﻄﺄ ﻭﺃﻧﻜﺮ ﺫﻟﻚ، ﻭﻗﺎﻝ: اﺟﻌﻠﻪ اﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ،

اور خرائطی نے اسے ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﺣﺪﺛﻨﻲ اﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ کے طریق سے ہی نقل کیا ہے
مكارم الأخلاق للخرائطي:(964)
خطیب بغدادی نے کہا:

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﻬﺪﻱ اﻟﺒﺰاﺯ ﻭﺃﺑﻮ اﻟﻔﺘﺢ ﻫﻼﻝ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﺤﻔﺎﺭ ﻗﺎﻻ: ﺃﻧﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺼﻔﺎﺭ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺣﺴﻴﻦ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮاﻥ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ(ﻫﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺤﺠﺎﺝ): ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ ﻳﻘﻮﻝ ﻓﻲ ﻫﺬا: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻗﻮﻝ ﻓﻲ ﻫﺬا: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮاﻥ( الصواب ابن عمران) ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﺇﺫا ﺗﺒﻮﺃ ﻣﻀﺠﻌﻪ اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻛﻔﺎﻧﻲ ﻭﺁﻭاﻧﻲ ﻭﺃﻃﻌﻤﻨﻲ ﻭﺳﻘﺎﻧﻲ، ﻭﻣﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﺃﻓﻀﻞ، ﻭﺃﻋﻄﺎﻧﻲ ﻓﺄﺟﺰﻝ، اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﺣﺎﻝ، اﻟﻠﻬﻢ ﺭﺏ ﻛﻞ ﺷﻲء ﻭﻣﻠﻴﻚ ﻛﻞ ﺷﻲء ﻭﻟﻚ ﻛﻞ ﺷﻲء، ﺃﻋﻮﺫ ﺑﻚ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، الكفاية في علم الرواية:ص:225

مزید علل حدیث کے ماہر امام وناقد أبو حاتم الرازی کو سنیے وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:

ﻭﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ ﺣﺴﻴﻦ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ؛ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله علیہ وسلم؛ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﺇﺫا ﺩﺧﻞ ﻣﻀﺠﻌﻪ: اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻛﻔﺎﻧﻲ ﻭﺁﻭاﻧﻲ…، ﻭﺫﻛﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ.ﻭﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ اﻟﻤﻨﻘﺮﻱ،
ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ، ﻋﻦ ﺣﺴﻴﻦ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ؛ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ اﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ: ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله علیه وسلم.
ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ: ﺃﻳﻬﻤﺎ ﺃﺻﺢ؟
ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﻤﺮ ﺃﺷﺒﻪ.
ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ: اﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ ﻣﻦ ﻫﻮ؟
ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺃﺩﺭﻱ.
ﻗﻠﺖ: ﻓﺎﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﺃﺩﺭﻙ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ؟
ﻗﺎﻝ: ﺃﺩﺭﻛﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﺒﻦ ﺳﻤﺎﻋﻪ ﻣﻨﻪ
علل الحديث لابن أبي حاتم الرازى:(2049) 5/ 366 ،367 ،368

حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا:

ﻭﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ ﻣﻦ ﺷﻴﻮﺥ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﻭﻫﺬا اﻟﻜﻼﻡ ﻳﺘﻮﻗﻒ ﻣﻌﻪ ﻓﻲ ﻭﺻﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ؛ ﻓﺈﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ ﻻ ﺻﺤﺒﺔ ﻟﻪ، نتائج الأفكار:3/ 67

آپ دیکھ لیں کہ بظاہر صحیح نظر آنے والی روایت امام العلل ابو حاتم الرازی کے سامنے تھی مگر آپ نے أبو معمر کی روایت کو درست قرار دیا اور ہم پر بھی لازم ہے جو ائمہ علل ونقاد علل حدیث ورجال کے جبل وماہر تھے۔
اور وہ صحیح اور ضعیف کو ایسے جانتے تھے جیسے اصل ونقل،سونے اور پیتل کے فرق کو ایک کرنسی کا ماہر و جوہری جانتا ہے۔
کیوں وہ اس میدان کے مثالی اور بلند ترین شہسوار تھے۔
اور اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی اس روایت کے معلول ہونے کو بیان کیا ہے۔
شیخ أبو جعفر عبد الله بن فھد الخليفى کہتے ہیں:

وليس في حديث أنس قوله (وأعطاني فأجزل، الحمد لله على كل،
حال، اللهم رب كل شيء ومليك كل شيء ولك كل شيء)، وهذا مما انفرد به حديث ابن عمر، وانفرد حديث أنس بقوله (النار فقد حمد الله بجميع محامد الخلق كلهم) فيبقى الخبران
على ضعفهما ( الخلیفی com)

اصل حدیث وہ ہے جسے امام مسلم نے سیدنا أنس بن مالک رضی الله عنہ سے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﻋﻦ ﺃﻧﺲ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺃﻭﻯ ﺇﻟﻰ ﻓﺮاﺷﻪ، ﻗﺎﻝ: اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﺃﻃﻌﻤﻨﺎ ﻭﺳﻘﺎﻧﺎ، ﻭﻛﻔﺎﻧﺎ ﻭﺁﻭاﻧﺎ، ﻓﻜﻢ ﻣﻤﻦ ﻻ ﻛﺎﻓﻲ ﻟﻪ ﻭﻻ ﻣﺆﻭﻱ،
صحیح مسلم:(2715)ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﻘﻮﻝ ﻋﻨﺪ اﻟﻨﻮﻡ ﻭﺃﺧﺬ اﻟﻤﻀﺠﻊ،

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی یہی حدیث محفوظ و صحیح ہے کتاب ورجال ہر دو اعتبار سے اور مستدرک حاکم والی روایت غیر محفوظ وضعیف ہے کتاب وسنت اور متن کے اعتبار سے۔
امام مسلم اور آپ کی صحیح اور اس میں رجال کا معیار بہت شاندار ہے جبکہ مستدرک حاکم میں یہ چیز مفقود ہے۔
مزید آپ غور کریں تو صحیح مسلم میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے عمل مبارک میں وہ الفاظ نہیں ہیں جو مستدرک کی روایت میں بیان ہوئے ہیں یعنی

اﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻣﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﺄﻓﻀﻞ، اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﺑﻌﺰﺗﻚ ﺃﻥ ﺗﻨﺠﻴﻨﻲ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، ﻓﻘﺪ ﺣﻤﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﺠﻤﻴﻊ ﻣﺤﺎﻣﺪ اﻟﺨﻠﻖ ﻛﻠﻬﻢ،

تو یہ الفاظ منکر وغیر محفوظ ہیں اور خاص موقع پر حمد وثناء وہی ہے جو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قول وعمل سے ملے اور ثابت ہو۔
باقی مطلقا باری تعالی کی حمد وثناء اپنے الفاظ وجذبات میں جتنا چاہیں کر سکتے۔
مگر جو عمل سنت سے جتنا ثابت ہے بس اڈے اس موقع ومحل پر اتنا ہی کریں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ