سوال (203)

صحیح مسلم (2788) کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ کا تذکرہ ہے۔ جس میں دائیں اور بائیں ہاتھ کا ذکر ہے۔ ایک دوست نے مجھے یہ امیج دیکھ کر کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ؟

جواب:

راجح بات یہ ہے کہ احادیث میں باہم کوئی تعارض نہیں ہے۔ پس، اللہ سبحانہ وتعالٰی کو اسم(نام) کے اعتبار سے اس کے دائیں اور بائیں ہاتھ سے متصف کیا جائے گا۔ جہاں تک ان کے معانی کی جہت کا معاملہ ہے تو دونوں برکت سے معمور دائیں ہیں ۔
ابن باز رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا :
علمائے سنت کے ہاں اس بابت تمام کی تمام احادیث صحیح ہیں. ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع و صحیح ہے اور موقوف نہ ہے. اس(مسئلہ کی تمام احادیث) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، الحمدللہ ۔ پس، اللہ تعالٰی کو نام کی حیثیت سے اس کے دائیں اور بائیں ہاتھ سے متصف کیا جائے گا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے. اور وہ دونوں شرف و فضل کے اعتبار سے برکت والے دائیں ہیں، جیسا کہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے ۔

فضیلۃ الشیخ محمد زین سرور حفظہ اللہ

احادیث میں دونوں طرح ہی ذکر ہے۔ یعنی یہ بھی ذکر ہے کہ اللہ کا دایاں اور بایاں ہاتھ ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ بطور نام اللہ کا ہاتھ دایاں بھی ہے اور بایاں بھی ۔ لیکن برکت اور فضیلت کے اعتبار سے دونوں ہی دائیں ہیں، یعنی مخلوق کی طرح جس طرح بایاں، دائیں سے کم درجے والا ہوتا ہے، یہ خامی اور نقص اللہ رب العالمین کی ذات میں نہیں ہے، بلکہ اس اعتبار سے اللہ رب العالمین کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔
زین صاحب نے جو عربی عبارت بمع ترجمہ ذکر کی ہے، اس کا مفہوم بھی یہی ہے۔
والراجح أنه لا تعارض بين الأحاديث ، فالله سبحانه وتعالى توصف يداه باليمين والشمال باعتبار الاسم ، أما من جهة المعنى ، فكلاهما يمين مباركة.

قال الشيخ ابن باز رحمه الله : ” كلها أحاديث صحيحة عند علماء السنة ، وحديث ابن عمر مرفوع صحيح ، وليس موقوفا ، وليس بينها اختلاف بحمد الله ، فالله سبحانه توصف يداه باليمين والشمال من حيث الاسم ، كما في حديث ابن عمر وكلتاهما يمين مباركة من حيث الشرف والفضل ، كما في الأحاديث الصحيحة الأخرى ” انتهى من ” مجموع فتاوى الشيخ ابن باز”. ( 25 / 126 )

ابن باز رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
علمائے سنت کے ہاں اس بابت تمام کی تمام احادیث صحیح ہیں. ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع و صحیح ہے اور موقوف نہ ہے. اس(مسئلہ کی تمام احادیث) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، الحمدللہ.. پس، اللہ تعالٰی کو نام کی حیثیت سے اس کے دائیں اور بائیں ہاتھ سے متصف کیا جائے گا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے. اور وہ دونوں شرف و فضل کے اعتبار سے برکت والے دائیں ہیں، جیسا کہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے…!!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ