سوال (1544)

حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور جو کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو حساب اس کے لیے جاری ہو جاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں ، ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں ، جب حالت اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تین قسم کی بیماریوں سے محفوظ کر دیتے ہیں: جنون، جذام اور برص ۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کر دیتے ہیں، جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دیتے ہیں، جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو لکھتے ہیں اور گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ پھر جب نوے سال کی عمر ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ اور اس کو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب “امین الله” اور “سِيرُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ” یعنی اللہ کا معتمد اور زمین میں اللہ کا قیدی ) ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہو جاتی ہے، کسی چیز میں لذت نہیں رہتی ، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے اور جب انتہائی عمر کو پہنچ جاتا ہے، تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو وہ اپنی صحت وقوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔ [تفسیر ابن کثیر ج : 3 ]
اس حدیث کی وضاحت فرما دیں کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟

جواب

سنداً یہ روایت ضعیف ہے ، بعض نے موضوعات میں شمار کیا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ