الله کا ذکر کثرت سے کرو

ایک نصیحت تمہیں اور کرتا ہوں، روزانہ کچھ وقت اللہ اللہ بھی کیا کرو۔ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ ہر وقت جدل و بحث ہی میں لگے رہتے ہیں اور اللہ کے ذکر سے یکسر غافل ہیں۔ ہمارے اسلاف تو ایسے نہ تھے، وہ سب ذاکر تھے، ان کی زبانیں ذکر سے رکتی نہ تھیں۔ شیخ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ ‘‘غایۃ المقصود’’ کے مقدمے میں حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“کان مستغرقا فی ذکر اللہ فی جمیع أحیانہ”

وہ آٹھوں پہر، چونسٹھ گھڑی خدا کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے۔
شیخ لکھتے ہیں:

“وکان لحمہ وعظامہ وأعصابہ وأشعارہ متوجہا إلی اللہ فانیا فی ذکر اللہ”۔

ان کا گوشت، ان کی ہڈیاں، ان کے پٹھے، ان کا ہر ہر بُنِ مُو خدا کی طرف متوجہ رہتا تھا اور خدا کے ذکر میں فنا ہو گیا تھا۔
یہ تھے ہمارے اسلاف، ہم تو دنگا فساد اور لڑائی جھگڑے میں پڑ گئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی کِھلّی اُڑا رہا تھا اور اس پر پھبتی کس رہا تھا کہ تمہارا درود غیر مسنون ہے اور تم بدعتی ہو۔ میں نے اسے کہا کہ بھائی آج جمعہ تھا، خود تم نے کتنا درود پڑھا؟ یہ تو تم نے کہا کہ اس نے غلط درود پڑھا، مگر تمہاری اپنی زبان بھی تو ساکت و صامت تھی؟ مسنون درود پڑھنے کی آج ایک بار بھی تمہیں توفیق نہ ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

“أکثروا علیّ الصلاۃ یوم الجمعۃ”

‘‘جمعہ کے دن مجھ پر درود کثرت سے بھیجا کرو۔’’
(مستدرک 2/421، علل الحدیث: 589، اذکار لابن سنی: 373، مصنف عبدالرزاق: 5338)
ہم پر کسی غفلت طاری ہوئی، جمعہ کے دن ہم نے درود پڑھنا بھی چھوڑ دیا۔
مولانا عبد الواحد غزنوی رحمہ اللہ کی عجب کیفیت ہوتی تھی جمعہ کے دن،ان کی زبان درود سے رُکتی نہ تھی۔ ان کی ایک عزیزہ نے جو ابھی زندہ ہیں اور معمر خاتون ہیں، مجھ سے ذکر کیا کہ ایک جمعہ کو عصر کے وقت میں مولانا عبد الواحد غزنوی رحمہ اللہ سے پوچھ بیٹھی کہ آپ نے میری فلاں چیز بازار سے منگوا لی ہے؟
ان کا چہر ہ متغیر ہو گیا، کہنے لگے: تم کو کیا ہو گیا ہے؟
دیکھو ساری کائنات میں حضورﷺ کے عاشقوں کے درود فرشتے مدینہ منورہ لیے جا رہے ہیں، تم دنیا کی باتیں کر رہی ہو، درود پڑھو خدا کے لیے۔
یہ ہمارے اسلاف تھے دوستو! ہم کو کیا ہو گیا؟
صرف تخریب، صرف خاک اڑانا ہمارا کام رہ گیا۔
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ کچھ وقت روزانہ اللہ اللہ کیا کرو۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس دنیا میں خدا کے ذکر کی لذت سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں، دنیا کی تمام لذتیں ذکر کی لذت کے سامنے ہیچ ہیں۔ ایک فقیر کہتا ہے:
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن پر آئی ہو
‘‘میرا سینہ ذکر سے مہک اٹھا ہے، میں آپے سے باہر ہوا جاتا ہوں۔’’
خاقانی کہتا ہے:
پس از سی سال این نکتہ محقق شد بہ خاقانی
کہ یکدم باخدا بُودن بہ از ملکِ سلیمانی
‘‘تیس سال میں لذت کی تلاش میں پھرتا رہا۔ تیس سال کے بعد یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچی کہ ایک لمحہ خدا کی معیت میں گزار دینا تخت سلیمانی کے ہاتھ آنے سے بھی بہتر ہے۔’’
دوستو! خدا کا ذکر بڑی چیز ہے۔ اور یہ بات بھی پلّے باندھ لو کہ لذت آئے یا نہ آئے، اس کے ذکر میں لگا رہنا چاہیے، جو آدمی لذت آئے تو ذکر کرتا ہے اور نہ آئے تو نہیں کرتا ہے، وہ لذت پرست ہے، اللہ پر ست نہیں ہے۔ میرے ایک بزرگ کہا کرتے تھے:
یا بم او را یانیابم جستجوئے میکنم
حاصل آید یا نیآید آرزوئے میکنم
“میں اسی جستجو میں لگا رہتا ہوں، اسے حاصل کرسکوں یا نہ کرسکوں۔ یہ کیا کم ہے کہ اپنی تمنا کا چراغ اس نے میرے سینے میں جلا دیا ہے، اپنی آرزو سے میرے سینے کو آباد کر دیا ہے، یہ کرم کچھ کم ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے؟”
دوستو! فراق ہو یا وصل، کیف ہو یا بے کیفی ہو، قبض ہو یا بسط، اس کے آستانے پر جم کر بیٹھے رہو اور اللہ اللہ کرتے رہو:
فراق و وصل چہ باشد رضائے دوست طلب
کہ حیف باشد ازو غیر او تمنائے
‘‘فراق اور وصل کیا چیز ہے؟ دوست کی رضا مانگو۔ حیف ہے جو اس سے اس کے سوا کسی اور کی آرزو کرو۔’’
اگر ذاکر ہر وقت کیف اور لذت میں رہے تو اس میں غرور اور کِبر پیدا ہو جائے اور ابلیس کی طرح راندہ ٔ درگاہ ہو۔ یہ بے کیفی بھی اس کی ربوبیت ہے کہ اس بے کیفی کی حالت میں انسان کو اپنی اوقات معلوم ہوتی ہے اور اس میں عجز و نیاز پیدا ہوتا ہے:
بہ دُرد و صاف تُرا حکم نیست دَم درکش
ہر آنچہ ساقیٔ ما ریخت عین الطاف است
‘‘تم دم سادھے رہو اور ساقی سے مت کہو کہ مجھے تلچھٹ پلاؤ یا مئے صافی دو۔ ساقی کی شفقت پر ایمان لاؤ، وہ جو کچھ تیرے پیالے میں ڈالتے ہیں، عین لطف و کرم ہے۔’’
یہ فراق اور وصل کی منزلیں، یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ ایک عارف کہتا ہے:
ہمینم بس کہ داند ماہ رُویم
کہ من نیز از خریدارانِ اُویم
فرماتے ہیں کہ میں تو اسی طات پر وجد میں ہوں کہ میرا محبوب جانتا ہے کہ میں بھی اس کے طلب گاروں میں ہوں، اصل بات اس کے آستانے پر جم کر بیٹھنا ہے اور اس کے ذکر میں لگے رہنا ہے۔
غالب کہتا ہے:
اس فتنہ خو کے دَر سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پر قیامت ہی کیوں نہ ہو
دیکھو، غالب رند ہو کر کیسی استقامت کی بات کہہ گیا۔ تُف ہے ہم پر اللہ کے عاشق ہونے کا دعویٰ کریں اور اتنی استقامت بھی نہ دکھلا سکیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ امام صاحب تہجد کے وقت دعا فرماتے تھے:
رحم اللہ أبا الہیثم
یا اللہ! تو ابوالہیثم پر رحم فرما۔
مجھے بڑا رشک آیا کہ یہ کون ہے، جس کے لیے اس قدر الحاح اور عاجزی سے دعا فرماتے ہیں۔ ایک دن جرأت کر کے پوچھ لیا کہ یہ ابوالہیثم کون ہے؟
فرمایا:
‘‘جب مجھے درے لگنے والے تھے اور مجھے جیل خانے کی طرف لے جا رہے تھے اور ضمیر فروش مولویوں نے آآکر مجھے تحریفیں کر کر کے آیتیں سنائیں اور کہا کہ کس نے اتنی ضد اور ہٹ کی ہے اے احمد، جو تم کر رہے ہو۔ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں بھی کچھ ڈانواں ڈول ہونے لگا تھا، اس وقت ایک ڈاکو میرے سامنے آیا، جس کا بازو کٹا ہوا تھا، اس نے کہا: احمد!
میں ڈاکہ زنی کی پاداش میں کئی بار جیل جا چُکا ہوں۔ میں جب رہا ہوا ہوں، سیدھا ڈاکہ ڈالنے کے لیے گیا۔ میرا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر بھی ڈاکہ ڈالتا رہا، اب میرا بازو کاٹ دیا گیا اور میں اب پھر ڈاکہ ڈالنے کے لیے جا رہا ہوں۔
اس نے کہا: احمد! میری یہ استقامت شیطان کے راستے میں ہے۔ حیف ہے تجھ پر اگر خدا کے راستے میں اتنی بھی استقامت نہ دکھا سکو۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں استقامت کا پہاڑ بن گیا، اس کے لیے دعا کرتا ہوں:
رحم اللہ أبا الہیثم
سودا قمارِ عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ لے نہ سکا ، سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رُو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا
پس اس کے آستانے پر جم کر بیٹھنا، اس کی غلامی پر ناز کرنا، توحید و ادب کو یکجا کرنا، مرکزیت کو قائم کرنا، اپنے بزرگوں کی تصنیفات کو زندہ کرنا اور اپنی درسگاہوں سے جو بانجھ ہو گئی ہیں، جو بنجر ہو گئی ہیں، نکاسی کا سامان کرنا، یہ ہیں کام کرنے کے دوستو!
اس بات کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا کہ نکاسی کیسے ہو گی؟
درسگاہون سے اہلِ قلم کیسے نکل سکتے ہیں؟
مبلغ کیسے پیدا ہوسکتے ہیں؟
مقرر کیوں کر پیدا کیے جائیں؟
ورنہ قحط ہوتا چلا جائے گا
دوستو! نہ کوئی اہل قلم ملے گا، نہ مقرر ملے گا، نہ قاری ملے گا، نہ محدث ملے گا، بانجھ ہوتی چلی جائے گی یہ زمین، اگر تم الیکشنوں میں لگے رہے
دوستو! یہ باتیں ہیں کرنے کی۔ مرکزیت کو قائم کرنا۔ روح کی پوری گہرائیوں سے اس کے ساتھ وابستگی کو محسوس کرنا۔ جو شخص اللہ اللہ نہیں کرتا ہے، اس کے دل کا کھوٹ نہیں جاتا ہے۔
اس کو مرکز کے ساتھ وہ وابستگی نہیں ہوسکتی ہے جو اللہ والوں کو اپنے مرکز سے ہوتی ہے۔
(خطبات ومقالات سید ابوبکر غزنوی موضوع: #جماعت_اہلحدیث_سے_خطاب ص245)

انتخاب: سیف اللہ ثناءاللہ

یہ بھی پڑھیں: راہِ اعتدال اپنائیے!