سوال (2902)

فرقہ اہل حدیث اللہ تعالٰی کے لیے جسم کے اعضا کے قائل ہیں، فرقہ اہل حدیث کے امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالٰی کے لیے اس کی ذات مقدس کے لائق بلاتشبیہ یہ اعضا ثابت ہیں، چہرہ آنکھ ہاتھ مٹھی کلائی درمیانی انگلی کے وسط سے کہنی تک کا حصہ سینہ پہلو کوکھ پاؤں ٹانگ پنڈلی، دونوں بازو ثابت ہیں۔
فرقہ اہلحدیث اللہ کی صفات متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان متشابہات کے جو ظاہری معنی ہمیں معلوم ہیں وہی اللہ کی بھی مراد ہے لیکن کیفیت اس کی معلوم نہیں۔
محدث امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:

وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.

ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
جبکہ فرقہ سلفیہ کا دعوی ہے کہ نصوص صفات پر ایمان لانے کیلئے صفات متشابہات کے معنی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
امام سیوطی ؒ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اہلحدیث عالم شمس افغانی سلفی جو کہ جامعہ اثریہ بشاور کا بانی ہے لکھتا ہے:

هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيهنا لهو عن حقيقتها، صارخ بالتعطيل صراخ ثكالي الجهمية

میں کہتا ہوں یہ عبارے پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
(والعیاذ باللہ)
[عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28]

جواب

یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، ذات صفات سے پہچانی جاتی ہے، جو صفات کا منکر ہے، وہ ذات کا منکر ہے، اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آگیا ہے، ہم صرف اس کا ترجمہ کرتے ہیں، کیفیت اور تمثیل میں نہیں جاتے ہیں، انکار کرکے ہم معطلہ بھی نہیں بنتے ہیں، یہ سلفی منہج ہے، ہم اس کو مانتے ہیں، اب اس کی تعبیر کسی نے کس طرح کردی ہے، یہ ایک الگ بات ہے، یہ اعضاء یا جسم کے قائل ہیں، یہ یاد رکھیں کہ جو چیز ذکر ہوئی ہے، ہم اس کے قائل ہیں، ہم صرف ترجمہ کریں گے، ہم تمثیل اور تشبیہ نہیں دیتے ہیں، یہی ہمارا منھج و ایمان ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

میں اس کا ایک جٹکا سا جواب دیتا ہوں، جو کوئی بھی کسی کو دے سکتا ہے، صفات الہی میں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں ہماری بحث عموما تفویض کرنے والے یا تاویل کرنے والے سے ہوتی ہے ہمارے پاکستان میں عموما تاویل والے اشاعرہ ماتریدیہ پائے جاتے ہیں، انکو آپ نے کہنا ہے کہ ویسے تو ہمارا موقف امام مالک والا ہے جو استوی کے بارے کہتے ہیں کہ الاستوء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ کہ ہم ان صفات کا معنی تو کرتے ہیں لیکن اسکی کیفیت کا علم نہیں ہے
لیکن ہم امام مالک وغیرہ کو چھوڑ کر ایک سادہ سی بات کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جو صفات آئی ہیں اس کی دو صورتیں دیکھتے ہیں
1۔ ہم صفت کا وہی معنی کریں جو عام کیا جاتا ہے البتہ مشبہ سے بچنے کے لئے ہم کیفیت کا انکار کریں
2۔ ہم مشبہ سے بچنے کے لئے معنی ہی دوسرا کر دیں
اب آپ خود سوچیں جو کام ہم دوسرے میں کرنا چاہتے تھے کہ ہم تشبیہ سے بچ جائیں تو کیا وہ کام پہلی صورت میں ہو نہیں چکا؟ یعنی پہلی صورت میں بھی تو تشبیہ سے بچ گئے ہیں اور دوسری میں بھی بچ گئے ہیں یعنی جو اصل مسئلہ تھا وہ تو دونوں صورتوں میں حل ہو چکا ہے یعنی مشبہ والا مسئلہ دونوں طریقوں سے حل ہو چکا اب اسکا کوئی اعتراض نہیں کر سکتا
اب غور کریں کہ اس مشبہ والے مسئلہ کو ایک طرف رکھ کر باقی عقل اور شریعت کے لحاظ سے اوپر کونسی صورت زیادہ بہتر ہے یہ ہر عقل سلیم رکھنے والا سمجھ سکتا ہے یعنی اگر پہلی صورت کی اجازت دیں گے تو کوئی بھی خطرہ موجود نہیں جو شریعت کے خلاف کسی مسئلہ کو جنم دے لیکن اگر دوسری والی صورت کی اجازت دیں گے تو ہر کوئی اپنی مرضی سے تاویل کرے گا اور پھر ہم نے ان تاویلات کی وجہ سے جو گمراہی دیکھی ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں
اور یہ تو انکے ہاں بھی متفق ہے کہ تاویل کا معنی اصل اور راجح معنی سے ہٹ کر مرجوح معنی کرنا ہوتا ہے لیکن یہ بھی سب کے ہاں متفق ہے کہ یہ تب کیا جاتا ہے جب کوئی ٹھوس دلیل موجود ہے اصل راجح معنی سے ہٹنے کی
تو میرا سوال ہے کہ تشبیہ والے مسئلہ کو ایک طرف رکھ کر کوئی اور ٹھوس وجہ بتا دیں جسکی وجہ سے آپ تاویل کرنا چاہتے ہیں یعنی راجح معنی سے مرجوح معنی کی طرف جانا چاہتے ہیں
واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ