سوال

مفتیان کرام میں نے ایک فتوی لینا تھا۔ ایک صاحب ہیں جن کا نام ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ پر یہ ایک بیان دیا ، میں نے اس بیان کے متعلق پوچھنا تھا کہ اس بیان میں توہین اسلام اور اسلام کا مذاق یا نعوذ باللہ من ذلک،  اللہ کی توہین موجود ہے اس حوالے سے مجھے فتوی چاہیے!؟

اسکے ویڈیو بیان کے الفاظ درج ذیل ہیں:

والٹیر ایک بہت بڑا فرانسیسی فلسفی تھا  ، اس نے ایک خوبصورت مثال دی ہے کہ دیکھیں کوئی شک نہیں کہ خدا ہے  مگر خدا کو آپ ایک گھڑی ساز سمجھیں اس نے ایک ایسی گھڑی بنائی ہے جس کے اندر گراریاں ہیں، سپرنگ ہیں، پہیے ہیں  اور وہ ایک انتہائی پیچیدہ نظام ہے جو ٹھیک ٹھیک چلتا ہے  لیکن ایک دفعہ بنانے کے بعد گھڑی ساز نے اس کو میز پر رکھ دیا ہے  اور وہ گھڑی چلتی چلی جائے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔  اب آپ بے شک کہیں کہ گھڑی تیز چلے، آہستہ چلے  آپ کے کہنے نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ،  تو بے شک آپ جتنی بھی دعائیں مانگیں، جتنی بھی نمازیں پڑھیں، جتنی بھی آپ گزارشیں کریں  مگر خدا اپنا قانون نہیں بدل سکتا…

اسی طرح پاکستان میں بہت ایسی دعائیں مانگی جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے  لیکن آپ دیکھیں ہماری زندگیاں اوسطا کتنی ہوتی ہیں  پچپن، ساٹھ اس سے زیادہ نہیں،اوسط زندگی کی مدت جاپان میں تو 80 سال سے پہلے کم ہی لوگ مرتے ہیں۔  اب ان کی کون سی دعا ہے ؟

ایک اور مثال میں دے سکتا ہوں  کہ  یہاں جب قحط پڑھتا ہے، بارش نہیں ہوتی ہے تو صدر پاکستان، وزیر اعظم، گورنر یہ کہتے ہیں کہ آؤ بارش کیلئے دعا کرو ۔ نماز استسقاء پڑھو  اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکلتے ہیں اور پھر نماز  ادا کرتے ہیں۔  اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی دعا سے واقعی بارش ہو سکتی ہے کہ نہیں  ہو سکتی؟    اگر فرق پڑتا ہے ان دعاؤں کے نتیجے میں تو اس کا مطلب یہ کہ اللہ تعالی نے ان کی بات سنی اور فیزکس کے قانون اس وقت کے لیے بدل دیے  یعنی کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کو توڑ کر آپ کے کہنے  پر سب ختم کر دیا۔

تو یہ بڑے گھمبیر قسم کے مسئلے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ اگر ہم سائنس اور دین کو   علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھیں تو پھر نہ اس کو نقصان پہنچے گا اور نہ اس کو پہنچے گا۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے اہم ارکان میں سے ہے۔ اورتقدیر پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ  اللہ تعالی نے پوری کائنات اور مخلوقات کو جس طرح حکم دے دیا ہے، وہ نظام ویسے ہی چل رہا ہے۔ لیکن اس کا  یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی  نے جو نظام بنا دیا ہے اب اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے یہ انتہائی غلط بات ہے ،جسکی تردید  قرآن مجید میں موجود ہے:

“يَمۡحُوۡا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثۡبِتُ”. [الرعد: 39]

’’اللہ مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے‘‘۔

ایک طرف ملحد فلاسفہ ہیں ، دوسری طرف قرآنِ مجید کی واضح تعلیمات، اس شخص کی قسمت ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو فلاسفروں کی باتیں اچھی لگتی ہیں، جبکہ قرآنِ کریم میں بیان کردہ حقائق کو سمجھنے سے ان کی عقل عاجز ہے۔

حالانکہ  یہ اللہ تعالی کے اس نظام کا ہی حصہ ہے کہ انسان اسباب کے تحت کام کرتا ہے، لیکن  بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبب نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی کام ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کسی چیز کو کرنے کے لیے اسباب کا محتاج نہیں ہے۔

البتہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جن میں سے ایک دعا ہے،  لہذا اللہ تبارک و تعالی سے دعا مانگتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالی کے رحمت کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ دعا کو اللہ تعالی نے عبادت قرار دیا ہے اور مانگنے کا حکم دیا ہے، اس میں اگر تاثیر نہ ہوتی  پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی ترغیب نہ دلاتے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی کتنی دعائیں قرآن مجید میں موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائیں۔

اور تقدیر سے متعلق جو کچھ قرآن وسنت سے ثابت ہے، عقلِ سلیم بھی اس کی گواہی دیتی ہے،  لہذا ایسی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں کہ فضول قسم کی مثالوں کو قرآن وسنت کے مقابلے میں بیان کیا جائے۔

اس میں کون سی مشکل بات ہے کہ اللہ تعالی نے تقدیر کے اندر یہ بات لکھی ہو ئی ہے کہ کسی شخص نے دعا مانگنی ہے اور اللہ تعالی نے بارش برسانی ہے، یا کسی شخص نے دعا مانگنی ہے اور اللہ تعالی نے اس کی عمر میں اضافہ کر دینا ہے۔

آج کے دن  اگر کوئی  شخص اپنی پراڈکٹ اور تخلیق میں کوئی تبدیلی کرنا چاہے تو کر نہیں سکتا؟ اسے نئے سرے سے ڈیزائن نہیں کر سکتا؟  حالانکہ اس کے پاس محدود قسم کے اختیارات ہیں، جبکہ اللہ رب العالمین   تو ہر قسم کے اختیارات کا خود خالق و مالک، قادر، مقتدر اور قدیر ہے، اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ اپنی مخلوق یا مخلوقات میں سے جس کو جب چاہے، جو مرضی حکم دے۔ اور پھر قیامت تک اس نے کسی بھی چیز کو جو بھی حکم دینا ہو اور اس میں جو بھی تبدیلی یا کمی بیشی کرنی ہو وہ اپنے پاس’تقدیر‘ میں پہلے سے لکھ رکھی ہو۔

تقدیر کی تفصیلات کا اگر ہمیں علم نہیں، تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اللہ تعالی کو بھی علم نہیں؟

وحی کا علم اللہ رب العالمین کی بات ہے، جو اس کائنات کو بنانے والے نےکائنات کے بارے میں ہمیں بتایا ہے۔ جبکہ سائنس کا علم انسانوں کے مشاہدات و تجربات اور عقلی موشگافیاں ہیں جو ہر ایک نے اپنے اپنے لحاظ سے کی ہوئی ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی پراڈکٹ یا تخلیق کے بارے میں اس کے خالق اور موجد کی بات کو ترجیح دی جائے، نہ کہ  دیگر لوگوں کے تجربات کو، جنہوں نے اس پوری پراڈکٹ اور تخلیق کو دیکھا ہی نہیں ہوا!

مختصر بات یہ ہے کہ شخصِ مذکور ڈاکٹر پرویز ہود نے اپنے مذکورہ  بیان میں کئی غلطیاں کی ہیں، جن میں دو انتہائی خطرناک ہیں:

(1) کسی (فلسفی)کاقول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو گھڑی ساز کے ساتھ تشبیہ دی اور اسکی تردید نہیں کی بلکہ اس پر رضامندی یا خاموشی بھی  اللّٰہ عزوجل کی شان میں گستاخی اور استہزاء ہے اور  ارشادِ باری تعالیٰ:

“فَلَا تَضۡرِبُواْ ‌لِلَّهِ ‌ٱلۡأَمۡثَالَۚ”.[النحل: 74]

’اللہ تعالی کے لیے مثالیں بیان نہ کرو‘۔

کی کھلی مخالفت ہے۔

(2) احتیاجِ دعا اور اس کی تأثیر کا انکار اور اسے  قانونِ فطرت کے ساتھ تشبیہ دینا جہالت گمراہی اور قصداً ایسا کرنا ایک عبادت(دعا) کا انکار واضح کفر ہے۔

لہذاصاحب بیان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے  توبہ واستغفار کرنا اور مذکورہ غلطیوں سے براءت کا اعلان کر نا چاہیے، ورنہ  یہ شخص مرتد شمار ہوگا۔                           وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ