اللہ تعالی کی عطا پر راضی رہیں
اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور فضل سے کوئی چیز عطا کرتے ہیں اور اپنے عدل اور حکمت سے روک لیتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ سے اولاد، مال، صحت یا کوئی اور چیز مانگے اور اسے وہ نہ ملے تو یہ اللہ کی حکمت ہے۔ بسا اوقات بندے کو عطا سے روکا جاتا ہے کیونکہ اس کے حق میں یہی بہتر ہوتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾.
’’عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور (یہ حقیقت) اللہ ہی خوب جانتا ہیں، تم نہیں جانتے۔ (البقرة : ٢١٦)
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں : ’’اور (یہ حقیقت) اللہ ہی خوب جانتا ہیں، تم نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے اللہ تعالی کے فیصلے کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے روکنے میں حکمت ہوتی ہے۔
⇚عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس مال آیا اور آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اس پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو نہیں دیتا اور جسے نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہے اور دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري : ٧٥٣٥)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢هـ) فرماتے ہیں :
’’اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان فطرتاً عطا کو پسند کرتا ہے اور روک لیے جانے کو ناپسند کرتا ہے اور انجام پر غور کیے بغیر اعتراض میں جلدی کرتا ہے، سوائے ان کے جن پر اللہ نے رحم کیا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کسی چیز کا بندے سے روک لیا جانا اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔‘‘ (فتح الباري : ١٣/ ٥١١)
حافظ محمد طاهر حفظہ اللہ