“اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جماعت”
صحابہ کرام کی جماعت اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جماعت ہے، جس جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی رضامندی کا اعلان کردیا ہے کہ میں ان سے راضی ہوں، یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی پسند کا معیار اعلی و ارفع ہے، جس کی کوئی مثال نہیں، جن کو اللہ تعالیٰ خود منتخب فرمائے پھر ان کے مقام کا کیا کہنا۔
اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، وہ ظاہر و باطن، ظاہر کے پیچھے چھپی نیتیں اور دلوں کی کیفیتوں کو خوب جانتا ہے، جب اس نے صحابہ کرام کو منتخب فرمایا تو یہ محض ظاہر بینی کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ ان کے دلوں کی پاکیزگی، نیتوں کی صفائی، اعمال کی خلوص اور کردار کی عظمت کو دیکھ کر انہیں چن لیا، اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے بعد دنیا کے بہترین، سب سے مضبوط ، سب سے پاکیزہ اور سب سے سچے دل صحابہ کرام کے پائے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے کلام حمید کو صحابہ کرام کے تذکرے سے بھر دیا ہے، اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام کے دل اتنی خوبیوں سے پُر اور صاف و شفاف ملے کہ رہتی دنیا تک ان کو پوری دنیا کے لیے آئیڈیل قرار دے دیا ہے۔
کوئی لولا لنگڑا، جاہل، ناسمجھ اور بیمار دل اللہ تعالیٰ کی پسند پر بولے تو وہ اپنی آخرت ہی برباد کر سکتا ہے، جہنم میں ٹھکانا بنا سکتا ہے۔ صحابہ کرام کے مقام کو نہ وہ گھٹا سکتا ہے، نہ ان کے فضائل پر کوئی پردہ ڈال سکتا ہے، وہ تو چمکتے ستارے ہیں جن کی روشنی قیامت تک مؤمنین کو راہ دکھاتی رہے گی۔
آج بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ایسی کسوٹی ہیں جن سے ناپاک، بیمار اور منافق دل پہچانے جاتے ہیں، جب ان عظیم ہستیوں کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہوتا ہے، تو صاف دل اہلِ ایمان سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اور ان کے دل محبت و عقیدت سے لبریز ہو جاتے ہیں، ان کا ایمان بڑھتا ہے، چہرے پر خوشیاں نمایاں ہوتی ہیں، لیکن جن کے دلوں میں نفاق، بغض، کجی یا نفرت صحابہ ہوتی ہے، وہ ذکر صحابہ سے بے چین ہو جاتے ہیں، ان کی طبیعتیں گھبرا اٹھتی ہیں، اور ان کے چہرے مرجھا جاتے ہیں۔
صحابہ کرام کے فضائل کا بیان ایسا آئینہ ہے، جس میں بیمار دلوں کی حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے، ان پاکیزہ ہستیوں کی عظمت سن کر جو دل تنگ پڑ جائیں، وہ دل دراصل ایمان سے خالی اور حق سے دور ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کے مناقب کا ذکر آج بھی حق و باطل، ایمان و نفاق اور اخلاص و خباثت کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے والا ایک آزمودہ پیمانہ ہے۔
بے وقوف اور جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنی تشہیر، واہ واہ اور لوگوں کی داد لینے کے لیے ان پاکباز ہستیوں کو نشانہ بناتے ہیں، ان پر اعتراضات کرتے ہیں، یہ بد نصیب لوگ اہل بیت اور صحابہ کے درمیان عداوت کا افسانہ گھڑتے ہیں، جس کی کوئی حقیقت نہیں، چند صحابہ کرام کے علاؤہ باقی کو مرتد قرار دے کر اپنے زہریلے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ خود کو بربادی کی ایسی اندھی کھائی میں جھونک دیتے ہیں جس سے واپسی ممکن نہیں۔
یہ سچ ہے کہ جنہوں نے ان پاکیزہ ہستیوں پر زبان درازی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں رہتی دنیا تک رسوائی کا نشان بنا دیا، ربِ ذوالجلال نے ان کی سزا دنیا ہی میں ظاہر کر دی تاکہ آنے والی نسلیں عبرت حاصل کریں۔
صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت ایمان کا تقاضا ہے اور ان کی توہین ہلاکت و ذلت کا راستہ ہے، جو ان مقدس چہروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں، وہ گویا اپنے آخرت کو خود تباہ کر لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا شکار ہو کر دنیا و آخرت میں عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔
لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ تمام صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے سچی محبت رکھیں، ان کے مقام و مرتبے کو دل سے تسلیم کریں، اور جب کبھی ان کے خلاف زبان درازی کی جائے تو بھرپور انداز میں ان کا دفاع کریں، امت کے سامنے ان کے فضائل اور مناقب کو بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان عظیم ہستیوں کی عظمت راسخ ہو جائے۔
یقین جانیے، انہی ہستیوں کی محبت اور دفاع میں ہماری دینی غیرت، اخروی نجات اور دنیاوی خیر و عافیت کا راستہ پنہاں ہے، جو شخص ان پاکیزہ نفوس کے ساتھ محبت رکھتا ہے، وہ درحقیقت ایمان پر قائم ہے اور جو ان کے احترام میں کمی کرتا ہے، وہ خود اپنی خیر و برکت کے دروازے بند کرتا ہے، پس اہلِ ایمان کے لیے یہی فلاح کا راستہ ہے کہ وہ صحابہ و اہلِ بیت کی محبت میں ثابت قدم رہیں۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی